امریکی صحافی نے دھماکہ کردیا، امریکی جرنیل کس طرح اوباما کے احکامات کی دھجیاں اڑا کر روس کے ساتھ مل گئے، ایسا انکشاف کہ امریکی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا

امریکی صحافی نے دھماکہ کردیا، امریکی جرنیل کس طرح اوباما کے احکامات کی ...
امریکی صحافی نے دھماکہ کردیا، امریکی جرنیل کس طرح اوباما کے احکامات کی دھجیاں اڑا کر روس کے ساتھ مل گئے، ایسا انکشاف کہ امریکی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر اوباما اس وقت شام میں دو رخی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف وہ شام کے صدر بشارالاسد کو عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں جو بشارالاسدہی کی کٹر مخالف ہے اور اسے ہٹا کر خود اقتدار پر قبضہ چاہتی ہے۔ ان کی اس جنگ میں روس سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا ہے جس نے بشارالاسد کی حمایت میں اپنی فوجیں شام میں اتار دی ہیں۔ ایسے میں امریکہ ہی کے ایک فوجی کمانڈر نے باراک اوباما کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور خفیہ طور پر روس سے جا ملا ہے۔ امریکی صحافی سیمور ایم ہرش نے انکشاف کیا ہے کہ یہ امریکی کمانڈر اوباما کی بشارالاسد کو ہٹانے کی پالیسی کو ناکام بنانے کے لیے انٹیلی جنس معلومات جرمنی، اسرائیل اور روس کو فراہم کر رہا ہے اور روس اس کمانڈر کی فراہم کردہ معلومات کے تحت شام میں کارروائیاں کر رہا ہے۔
سیمور ایم ہرش کا یہ آرٹیکل ’’لندن ری ویو آف بکس‘‘ میں شائع ہوا ہے جس میں اس نے پینٹا گون کے ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ایک امریکی کمانڈرسابق جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارٹن ڈمپسے اوباما کی مخالفت میں روس ، جرمنی اور اسرائیل کو خفیہ معلومات فراہم کرتا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لیے ہونے والے مباحثے میں سیمور ہرش کے اس انکشاف کی تصدیق ہو چکی ہے۔ یہ مباحثہ شام کے مسئلے پر ہوا تھا جس میں اس موضوع پر بحث کی گئی تھی کہ کیا داعش کو شکست دینے کے لیے بشارالاسد کو ہٹایا جانا چاہیے یا نہیں۔ اس بحث میں سیمور ہرش کا انکشاف بھی زیربحث آیا۔
ہرش نے لکھا ہے کہ اوباما کی بشارالاسد کو ہرممکن ہٹانے اور اسے شکست دینے کے لیے باغیوں کو مسلح کرنے کی پالیسی سنگین غلطی تھی۔ امریکہ نے آج تک جتنے بھی باغیوں کو تربیت دی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا انہوں نے وہ اسلحہ دیگر بڑی شدت پسند تنظیموں النصرہ گروپ اور داعش کو فروخت کر دیا جس سے امریکہ کو داعش کے خلاف لڑنے میں مشکلات پیش آئیں۔ انہوں نے لکھا کہ بشارالاسد کو ہٹانے سے شام میں وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جو اس سے قبل لیبیا اور عراق میں پیدا ہو چکی ہے جہاں امریکہ نے مطلق العنان حکمرانوں کو ہٹایا مگر ان کے بعد وہاں حکومت کا ایک خلا پیدا ہوا جسے شدت پسندوں نے پر کیا۔ ہرش نے لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’وائٹ ہاؤس سچ نہیں سننا چاہتا۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ جنرل مارٹن نے دوسرے ممالک کو انٹیلی جنس معلومات دینے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے ذریعے یہ معلومات شامی افواج تک پہنچیں اور وہ بہتر انداز میں النصر گروپ اور داعش کے خلاف لڑ سکیں۔جنرل مارٹن نے اس کے لیے روس، جرمنی اور اسرائیل کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ جرمنی اس بات سے خوفزدہ تھا کہ اگر داعش دنیا میں پھیل گئی تو اس کے ملک میں موجود 60لاکھ مسلمانوں میں بھی اس کی نمائندگی پیدا ہو جائے گی جو جرمنی کے لیے خطرناک ثابت ہو گی۔ اسرائیل شام کے ساتھ اپنا بارڈر منسلک ہونے کی وجہ سے خطرہ محسوس کر رہا تھا اور روس شام کا طویل عرصے سے اتحادی تھا۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -