ایڈز زدہ آدمی 8 سال تک ڈاکٹر سے علاج کرواتا رہا، پھر ٹیسٹ کروایا تو مکمل صحت مند، ایسا کیسے ممکن ہے؟ حقیقت جان کر آپ کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ جائیں گے
بیجنگ (نیوز ڈیسک) بیماری کی غلط تشخیص ہونے کی صورت میں درست علاج نہیں ہوسکتا، لیکن اگر تشخیص میں اتنی بڑی غلطی ہو جائے کہ صحتمند شخص کو ایڈز کا مریض قرار دے دیا جائے تو یقینا یہ بد قسمت شخص جیتے جی مر جائے گا۔ یہ دردناک سانحہ چین سے تعلق رکھنے والے 53 سالہ شخص یانگ شوفا کے ساتھ حقیقت میں پیش آگیا، جو آٹھ سال تک ایڈز کا علاج کرواتا رہا لیکن پھر ایک دن انکشاف ہوا کہ اسے غلطی سے HIVپازیٹیو قرار دے دیا گیا تھا۔
نیوز سائٹ شنگھائسٹ کے مطابق 2004ءمیں جب زین پنگ کاﺅنٹی ڈیزیز کنٹرول سنٹر کے زیر اہتمام لاکھوں لوگوں کے HIVٹیسٹ کئے گئے تو ان میں یانگ بھی شامل تھا۔ جب ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ یانگ ایڈز کا مریض ہے۔ یہ بھیانک انکشاف ہوتے ہی بیچارے یانگ کی زندگی میں ایسا تلاطم برپا ہوا کہ جو آج تک تھمنے میں نہیں آیا۔
یہ خبر پڑھنے کے بعد آپ کوئی بھی تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے پہلے بار بار سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے، انتہائی شرمناک حقیقت سامنے آگئی
یانگ کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی اور اس کے تین بچوں نے بھی اسے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے پیاروں کو کھودینے کے صدمے سے ابھی باہر نہیں آیا تھا کہ اہل علاقہ نے اس پر یہ کہہ کر بجلی گرادی کہ وہ ایڈز کے مریض کو اپنے درمیان نہیں دیکھنا چاہتے، اور یوں اپنی ہی برادری نے اسے علاقہ بدر کردیا۔
یانگ کا کہنا ہے کہ جب 2012ءمیں وہ کچھ معمول کے ٹیسٹ کروانے کے لئے ہسپتال گیا تو ایک بار پھر ایسا انکشاف ہوا کہ وہ ہل کر رہ گیا۔ ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ وہ ایڈز کا مریض نہیں ہے اور یقینا اسے غلطی سے ایڈز کا مریض قرار دیا گیا تھا۔
یانگ نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر زین پنگ کاﺅنٹی ڈیزیز سنٹر کے متعلقہ حکام کے خلاف 20 لاکھ یوان ( تقریباً 3 کروڑ 19لاکھ پاکستانی روپے) ہرجانے کا دعویٰ کردیا ہے۔ غلط تشخیص کرنے والے ڈاکٹروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مقدمہ طول پکڑرہا ہے لیکن یانگ کہتے ہیں کہ وہ ہمت نہیں ہاریں گے اور قانونی جنگ جاری رکھیں گے۔
صوبہ ہینان کے HIVایڈز پری وینشن انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر زو کیان یانگ کی مدد کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یانگ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بہت تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایڈز جیسی خطرناک بیماری کی تشخیص میں ہرممکن احتیاط سے کام لیا جائے، جبکہ عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ ایک سے زائد ڈاکٹروں کی رائے ضرور لیں۔