حوثی باغی کون ہیں ؟
صنعاء(خصوصی رپورٹ)حوثی قبائل یمن میں آباداور کئی سو سال تک یمن میں حکومت کرنے والے زیدی اہل تشیع کی ایک شاخ ہیں ،2004 میں شیعہ رہنما بدرین الدین الحوثی نے حوثی قبائل کو متحد کر کے حکومت کیخلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا ، اس وقت کے صدر علی عبداللہ صالح کی فوجوں نے حوثیوں کیخلاف آپریشن کا آغاز کیا اور اس آپریشن میں بدرالحوثی مارے گئے اسوقت حوثیوں کی قیادت عبدالمالک الحوثی کے پاس ہے ،2004ء میں بھی جب حوثیوں اور یمنی فوجیوں کے درمیان جنگ عروج پر تھی تو حوثیوں نے صداصوبے کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا جبکہ صوبہ ہجا ، امران، الجواف اور سعودی صوبے جیزان میں بھی جھڑپیں شروع ہو گئیں جس پر سعودی فورسز نے یمن میں داخل ہو کر حوثیوں کیخلاف آپریشن میں یمنی فوج کی مدد کی ، یمنی حکومت کا موقف ہے کہ شیعہ ہونے کے باعث ایرانی حکومت حوثیوں کی مدد کر رہی ہے اور انہیں اسلحہ فراہم کرتی ہے ۔
مزیدپڑھیں:یمن میں تیسرے روز بھی بمباری جاری،پاکستانیوں کی جانوں کو خطرہ ،کھانے پینے کی اشیاءکی قلت
2009ء میں یمنی حکومت نے شمالی صوبے صدا میں حوثیوں کیخلاف دوبارہ آپریشن شروع کیا تو سعودی حکومت نے اس میں بھرپور حصہ لیا ،20جنوری 2015کو حوثیوں نے یمنی دارلحکومت صنعاء پر دھاوا بول کر اس پر قبضہ کر لیا اور صدارتی محل پر بھی قبضہ کر لیا ،عبوری حکومت کے سربرا ہ عبدالربومنصور ہادی اسوقت صدارتی محل میں تھے جب اس پر شدید گولہ باری کی گئی ، صدر ہادی وہاں سے فرار ہو کر عدن چلے گئے اورعدن کو عارضی دارلحکومت قراردیدیا اس کے بعد حوثیوں نے مزید کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا اب جبکہ حوثیوں نے سعودی سرحد پر واقع یمنی صوبے محراب کی طرف پیش قدمی کی تو سعودی حکومت بھی حرکت میں آئی اور حوثیوں پر بمباری شروع کر دی ، محراب صوبہ نہ صرف سعودی سرحد کے قریب واقع ہے بلکہ یہ صوبہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور یمن کا سارا تیل اسی صوبے سے نکلتا ہے جس پر یمنی معیشت کا انحصار ہے اس صوبے میں سنی قبائل کا کنٹرول ہے اور کئی ماہ سے یہ سنی قبائل حوثیوں کیخلاف لڑائی کی تیار ی کر رہے ہیں ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یمن میں مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو وہاں شدید خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے کیونکہ اس وقت یمن کے کچھ صوبوں پر شیعہ زیدیوں اور حوثیوں کا قبضہ ہے اور کچھ صوبوں میں سنی قبائل قابض ہیں ، چند صوبوں میں داعش اور القاعدہ بھی موجود ہے ۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب کو خدشہ ہے اگر یمن میں بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے حوثی برسراقتدار آ گئے تو اس کی سرحد پر واقع تین ممالک عراق، یمن اور لبنان اہل تشیعہ کے کنٹرول میں چلے جائیں گے جس سے اس کے تیل سے مالا مال صوبے الناصریہ میں موجود اہل تشیعہ کی اکثریت بھی بغاوت پر آمادہ ہو سکتی ہے ۔