یہ آدمی کوبرا سانپ اپنی زبان پر صرف اس لئے کٹواتا ہے کہ اسے بے پناہ طاقت ملے اور پھر یہ۔۔۔
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) ہم میں سے کوئی بھی اگر اپنے سامنے سانپ کو دیکھ لے تو سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہو گا لیکن بھارت میں ایک ایسا شخص ہے جو سانپ سے اپنی زبان پر ڈسواتا ہے اور وہ بھی شیش ناگ سے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق 68سالہ رام رکھا گزشتہ 10سال سے یہ خوفزدہ کردینے والا کرتب کرتا آ رہا ہے۔ زبان پر کوبرا کے ڈسنے کے بعد وہ کچھ لمحے کے لیے بے ہوش ہوتا ہے اور اس کی زبان سے خون ٹپکنے لگتا ہے مگر پھر وہ پہلے سے زیادہ طاقت محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کا یہ کرتب اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ اردگرد کے دیہاتوں کے لوگ اسے بھگوان سمجھتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔
شیطان کو ہیڈ کوارٹر مل گیا، یہ کیسا ہے اور کس طرح کا دکھتا ہے؟جان کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے
رام رکھا کا کہنا ہے کہ ”مجھے سانپ سے خود کو ڈسوانا اچھا لگتا ہے۔ اس سے مجھے بے پناہ طاقت ملتی ہے۔ میں خود کو سانپ سے ڈسوانے میں قطعاًخوف محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اس سے درد ہوتا ہے۔ میں چند سیکنڈ کے لیے بے ہوش ہوتا ہوں اور میری زبان سے خون نکلتا ہے مگر پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے اور میں اس عمل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ میری اس صلاحیت کے باعث علاقے میں مجھے بہت پذیرائی حاصل ہے۔ میرا یقین ہے کہ یہ مجھ پر بھگوان کی کرپا ہے کہ مجھ پر سانپ کا زہر اثر نہیں کرتا۔
رپورٹ کے مطابق رام رکھا گزشتہ 10سال سے تیجاجی کے سالانہ میلے میں یہ کرتب کرتا آ رہا ہے۔ یہ میلا بھارتی ریاست راجستھان کے گاﺅں سریلی میں ہندودیوتا ”ویر تیجاجی“ کی یاد میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں اور بھی لوگ کئی طرح کے سٹنٹ کرتے ہیں جنہیںدیکھنے کے لیے لوگ دور دراز کے دیہاتوں سے وہاں آتے ہیں۔ رام رکھا سانپ سے خود کو کٹوانے کے بعد اپنے پیروکاروں کے ہمراہ اسے لیجا کر جنگل میں چھوڑ دیتا ہے۔ علاقے کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ رام رکھا ملکوتی طاقت کا مالک ہے جس کی وجہ سے اس پر زہر اثر نہیں کرتا۔ قرب و جوار کے دیہات میں جب کبھی کسی شخص کو سانپ کاٹ لے وہ رام رکھا کے پاس جاتا ہے جو اپنا منہ سے اس شخص کے زخم سے زہر چوس لیتا ہے اور وہ آدمی تندرست ہو جاتا ہے۔قریبی گاﺅں کے 40سالہ کسان سورج چوہدری کا کہنا ہے کہ ”میں ہر سال اس میلے میں رام رکھا کا یہ کارنامہ دیکھنے آتا ہوں۔ یہ بہت حیران کن ہے۔ اس کی مافوق الفطرت صلاحیت کے باعث ہم اسے اپنا بھگوان سمجھتے ہیں۔“