ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 13
تحریر: پیر ابونعمان
درود و سلام ، گیارہویں شریف اور محافل کی برکت ایک نعمت ہے جو ذکر کرنے والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ میرے پیرومرشد نے مجھے روحانی تربیت دی ہے۔ اور اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ اگر خواتین کو بھی راہ سلوک پر چلنے کا موقع دیا جائے تو انسان قناعت و صبر و شکر کا عادی ہو جاتا ہے اور اللہ کی رضا میں خوش رہتا ہے۔ عمرہ شریف کے بعد میں اکثر سوچتی تھی کہ میں جو زعم میں مبتلا رہتی تھی کہ ایک زمیندار گھرانے کی لڑکی ہوں۔ اعلیٰ ذات ہے میری۔ ایک مفلس شخص سے کیسے شادی کر سکتی ہوں۔ اگر کر لی تو گزارہ کیسے کروں گی۔ میں نے ایسے واقعات دیکھے ہیں کہ خوشحال لڑکیاں غریب گھرانوں میں جاتی ہیں تو اکثر ان گھرانوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہیں۔ مجھے اپنی سوچوں پر دکھ ہونے لگا تھا۔ ایک روز میں نے اپنے شوہر سے کہا۔ ’’اعجاز صاحب آپ مجھے معاف کر دیں۔‘‘ اس روز میں بہت روئی کہ میں ایسی بیوی ہوں جو اپنے شوہر کی صحیح خدمت نہیں کر پا رہی۔ میرے شوہر نے مجھ سے سبب دریافت کیا تو میں نے کہا ’’آپ تھکے ہوئے گھر آتے ہیں ، میں نے کبھی آپ کے ہاتھ پاؤں نہیں دبائے۔‘‘
ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرے شوہر ہنس پڑے ۔ کہا’’تم بھی تھک جاتی ہو ۔۔۔صبح جامعہ چلی جاتی ہو اور سارا دن پڑھاتی ہو۔ تم تو مجھ سے زیادہ محنت کرتی ہو۔‘‘
وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں ان کے پاؤں دباؤں۔ جو خاتون اپنے والد اور اپنے شوہر کی خدمت اس طرح کرتی ہے تو اس میں قوت برداشت بڑھتی اور اس کی سرکشی کم ہوتی ہے۔ عورت کی سرکشی کو شیطان ہوا دیتا اور وہ بے جا فرمائشوں کی وجہ سے گھر کا سکون برباد کر دیتی ہے۔ اس روز میں نے اپنے شوہر کے پاؤں دبائے تو مجھے بہت سکون ملا۔ رات کو جب سوئی تو اللہ کریم نے مجھے اپنے گھر کی زیارت کرا دی۔ میں نے بہت سہانا خواب دیکھا کہ خانہ کعبہ میں کھڑی ہوں اور آواز آتی ہے جلدی سے اندر آجاؤ۔ خانہ کعبہ کا دروازہ کھلتا ہے اور میں انوار و تجلیات سے گزرتی وہاں نوافل ادا کرتی ہوں۔ مجھے یہ سعادت اس وقت ملی جب میں نے اپنے اندر نفس کی سرکشی کو مزید کمزور کیا اور اپنے شوہر کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ اللہ کریم نے میرے مرشد کریم کے زیر سایہ ایسی تربیت سے گزارا ہے کہ میری گھر میں زندگی میں اطمینان بہت ہے۔ ایک عورت کو اور کیا چاہئے ہوتا ہے۔ گھر کا سکون اور شوہر کی بے پناہ محبت، جو پیسے والوں اور کوٹھیوں والوں کو بھی نہیں ملتی۔ یہ اللہ کی عطا ہے جو ذکر کی نعمت سے حاصل ہوتی ہے۔
تعویذات اور دعاؤں کا اثر
بہت سے اولیائے عظام کی حیات مبارکہ میں ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جب سائلین ان کی دعاؤں اشاروں سے اور نگاہوں سے ہی فیض یاب ہو جاتے ہیں مگر پیر محمد رمضان کا یقین ہے کہ اولیاء کرام اللہ کی نعمتوں اور عطا سے معمور ہوتے ہیں۔ وہ عشق الٰہی میں فنا ہوتے ہیں لہٰذا وہ محبوب کی مشیّت و رضا کے درمیان میں نہیں آتے۔ کوئی سائل ایسا بھی ہوتا ہے جو اک نگاہ سے یا دعا سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس کی حاجت رفع نہیں ہوتی اور مہینوں سالوں تک اسے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ ایک مقبول ولی کی دعا قبول نہیں ہو رہی ہوتی۔ دراصل وہ ولی اللہ جب دیکھ لیتا ہے کہ سائل کی مشکل حل ہونے کا وقت نہیں آیا ہے اور اللہ تبارک تعالیٰ کی رضا بھی یہی ہے تو وہ دعا تو کرتے رہتے ہیں مگر اس میں اللہ کی رضا شامل نہ ہونے سے سائل کی حاجت روائی نہیں ہوتی۔پیرصاحب کا کہنا ہے کہ یہ بڑے لطیف معاملات ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل چاہے تو دست دعا اٹھنے سے پہلے ہی اپنے بندوں کی لاج رکھ لیتا ہے اور چاہے تو اپنے بندوں کو اپنی حکمت و مشیّت کے تحت انتظار کرواتا ہے اور یہی انتظار امتحان و آزمائش بھی ہوتا ہے۔ ادب و استقامت میں کسی سالک کی آزمائش کا بھی یہی مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر وہ صابر اور مستحکم ہے تو فیض سے جھولی بھر لیتا ہے۔ اگر محض حجتی، بے ادب اور استقامت سے محروم ہے اور صرف اپنی غرض و ہوس سے اپنی مرادیں پوری کرانے کے لیے ریا کاری سے کام لیتا ہے تو اس کی نیّت میں پیدا ہونے والی کھوٹ اس کی روح کو طمانیت نہیں دیتی۔ ہمارے پاس لوگ آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل کو تعویذات اور دعاؤں سے حل کر دیا جائے۔ ہمارے پاس نہ کوئی اختیار ہے نہ کوئی قوت۔ ہمارے ایسے فقیر لوگ دعا اور تعویذ بھی کر دیتے ہیں مگر جب تک اللہ کریم کی رضا شامل نہ ہو یہ دعائیں التجائیں اور حروف بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ درحقیقت ایک سالک اور سائل کو صدق دل سے اللہ پر یقین رکھنا چاہئے اور یہی اس کا مقصود ہونا چاہئے کہ حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے ۔ وہ سمیع و بصیر قادر مطلق ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ البتہ دعا و تعویذات ایک وسیلہ کا کام کرتے ہیں،یہ وسیلہ ربّ کریم سے التجا کا نام ہے۔ جس طرح ہر مرض سے شفا اللہ کریم کی عنایت سے حاصل ہوتی ہے اور وہ ہی شافع مطلق ہے ،دوا تو سنت، حجت اور وسیلہ ہوتی ہے۔ جسم کی دوا کو میڈیسن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ روح کی دوا دعا کہلاتی ہے۔ تزکیہ کرنے سے روح صاف ستھری ہوتی ہے، ورنہ اس کی آلائشیں کہاں دور ہوتی ہیں؟۔ روح پاک و صاف اور تندرست عبادت ، ریاضت ، ذکر الٰہی سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے سے روح کو سرور ملتا ہے۔ (جاری ہے )
ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔ ۔ ۔ آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(اس داستان کے بارے میں اپنی رائے دیجئےsnch1968@gmail.com )