شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . دوسری قسط‎

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . دوسری قسط‎
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . دوسری قسط‎

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ بالی ووڈ کی زبانی انکی اپنی کہانی،دلچسپ ،حیرت انگیز۔۔۔ روزنامہ پاکستان میں قسط وار۔ ترجمہ : راحیلہ خالد

میں آگ اور طونان کے بیچوں بیچ جنم لے چکا تھااور یہ رات انہونے واقعات سے بھری تھے ۔ہر کسی کا ایمان کی حد تک یقین تھا کہ اس رات پیدا ہونے والا بچہ کوئی عام نہیں ہوسکتا۔پشاور میں پھر کبھی ایسی رات نہیں آئی۔
ہمارے گھر کے سبھی مرد بھی آگ بجھانے میں اپنے دوسرے بھائیوں کی مدد کیلئے اُس گلی کی طرف بھاگے جہاں آگ لگی ہوئی تھی لیکن چاچا عمر کو گھر کی عورتوں کے اکیلے ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی چھوڑ گئے۔ اور وہ چاچا عمر ہی تھے جو اس رات میری والدہ کے لئے دائی اماں کو بلانے کیلئے گئے کیونکہ مجھے اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔ پہلے وہ دائی اماں کو بحفاظت ہمارے گھر لائے اور اس کے بعد آغا جی کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لئے بھاگے۔

پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
ایک بار جب وہ پرانی یادیں تازہ کرنے کے موڈ میں تھے تو انہوں نے مجھے بتایا ’’ تم جانتے ہو کہ اس رات میں بہت غصے میں تھا اور اپنے آپ کو کوس رہا تھا کیونکہ اس رات ٹھنڈ بہت زیادہ تھی اور ہوا بھی بہت خطرناک انداز سے چل رہی تھی۔ اور تب ایک انسانی زندگی بچانے کیلئے اکیلے باہر نکلنا کسی سزا سے کم نہ تھا۔ لیکن جس لمحے دائی اماں نے اپنا کام ختم کرنے کے بعد تمھاری پیدائش کی خبر سنائی اور ہم نے تمہاری شکل میں ایک ننھے گلابی اور پیارے سے بچے کو دیکھا تو میرا غصہ ختم ہوگیا ، مجھے ایسا لگا جیسے مجھے میری محنت و کاوش کا صلہ مل گیا ہو۔‘‘

چاچا عمر میری پیدائش کے بعد میری چیخوں اور آپس میں دی گئی مبارکباد بارے بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس کیا کرتے تھے کہ کیسے محمد سرور خان اور بی بی عائشہ کے گھر چوتھے بچے کی آمد کی خوشی منائی گئی۔ جبکہ دوسری گلی میں آگ لگنے کے باعث افراتفری اور خوف و ہراس کا سماں تھا۔ 

سردیوں کے مہینوں میں آتش دان کے سامنے بیٹھ کر،میں بڑے غیر محسوس انداز سے،بڑوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر محظوظ ہوا کرتا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں کم ہی کیا کرتے تھے۔ ان کی زیادہ تر گفتگو عجیب و غریب کہانیوں اور خوفناک واقعات پر مشتمل ہوتی تھی۔ اور خاص طور پر جب وہ آہستہ آواز میں آپس میں ڈراؤنے خوابوں بارے اپنی یادداشتوں کا تبادلہ کیا کرتے تھے تو میں پوری توجہ سے انکی سرگوشیوں کو سننے میں لگا رہتا۔ ایسے ہی ایک موقعے پر میری دادی اماں میرے اس دنیا میں تشریف لانے کی کہانی اپنے سننے والوں کو سنا رہی تھی۔ ساری کہانی سنانے کے بعد انہوں نے چھت کی طرف دیکھ کر اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے یہ جملہ کہا۔
’’ اور عائشہ کا سوہنا بیٹا یوسف تشریف لایا۔‘‘
صرف دادی ہی نہیں محمد سرور خان اور عائشہ بی بی کے گھرانے کا ہر فرد مناسب موقع ملنے پر میری پیدائش کی عظیم داستان سنا تاتھا۔ جیسے یہ کوئی انہونی بات ہو۔ وہ 11 دسمبر 1922 ء کا دن تھا۔ مجھے شک ہے کہ شاید 11 دسمبر کا وہ دن،پشاور کی تاریخ میں بھی درج ہو گا اس لئے نہیں کیونکہ اس دن میں پیدا ہوا بلکہ اس لئے کیونکہ اس دن سناروں کی ورکشاپوں میں آگ لگی تھی۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں،اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی بھی اس طرح کا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا جس طرح کا سانحہ سناروں کی گلی میں پیش آیا تھا۔
میری دادی جان کے خیال میں آگ اور طوفان کے درمیان میری پیدائش میں کوئی حکمت چھپی ہوئی تھی۔ لیکن میرے والدین ان کی اس قسم کی باتوں کو اس دن تک کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے کہ ایک دن جب میں اپنے گھر کے سامنے والے کمرے میں کھیل رہا تھا۔
ایک فقیر کھانا اور پیسے مانگنے کیلئے دروازے پر آیا۔ ہمارے گھر میں دروازے پر آئے فقیروں اور گداگروں کو کھانا اور پیسے دینا عام تھا۔ جیسے ہی اس فقیر نے دروازے پر صدا لگائی تو اماں جلدی جلدی اس کیلئے کھانا باندھنے لگیں جبکہ دادی اپنی آرام دہ کرسی پر آرام سے بیٹھی رہیں۔
اپنے وجود پر نظروں کی چبھن محسوس کرتے ہی میں نے کھیلنا بند کر دیا۔ فقیر کی اونچی آواز نے دادی کو اٹھ کر بیٹھنے اور اس کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس نے ان سے مجھے اس کے سامنے لانے کو کہا۔ وہ ایک لمحے کو ہچکچائیں لیکن وہ آدمی بہت جوش میں تھا اور اس کے اندر کے جذبات اسے اکسا رہے تھے۔ اپنے پانچ سالہ ذہن میں خوف اور تجسس کی ملی جلی کیفیات لئے،اب میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ میں ایک عام بچہ نہیں ہوں۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور ایسے ظاہر کیا جیسے میں نے اس کے الفاظ سنے ہی نہ ہوں۔ پہلے میری پیدائش پہ وہ ڈرامائی آگ اور برفانی طوفان اور اب فقیر کے یہ الفاظ کہ میں عام بچہ نہیں ہوں۔ میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ وہ فقیر اب آگے کیا کہنے جا رہا تھا۔

جاری ہے۔ تیسری قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں۔