بیسویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی
ترجمہ : راحیلہ خالد
کسی وجہ سے آغا جی کے میرے بارے بڑے بڑے خواب تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھوں اور متاثر کن ڈگریاں حاصل کروں۔ تب انڈیا میں برطانوی حکومت تھی۔ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ میرا نام (Order of the British Empire)OBE سے منسلک دیکھیں۔
ایک دفعہ میں نے انہیں میری اماں کو سرزنش کرتے ہوئے یہ کہتے سنا کہ،
’’ وہ تمہاری سوچ سے زیادہ بڑی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ اسے پھل نہیں بیچنے چاہییں۔ اسے قانون کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ اسے بیرون ملک جانا ہو گا اور وہاں تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ اس میں کچھ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔‘‘
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی۔۔۔انیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں اماں سے آغا جی کے میرے بارے خیالات سن کر خوش ہوا تھا لیکن اس بات نے مجھے خوفزدہ بھی کیا تھا۔ کیا میں ان کی توقعات پر پورا اترنے کے قابل ہوں گا؟ میں فطرتاً محنتی اور قابل تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر میری حوصلہ افزائی کی جاتی اور میرے ساتھ تعاون کیا جاتا تو میں فٹبال کا ایک کامیاب کھلاڑی بن سکتا تھا۔ لیکن جہاں تک OBE کا تعلق تھا،میں وہ کیسے حاصل کر پاتا؟
میں ایک شوقین و مشتاق قاری تھا۔ میں اردو اور انگریزی مصنفین کو پڑھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ میں مزاجاً ایک شرمیلا اور لئے دئیے رہنے والا انسان تھا لیکن میں نے بڑی آسانی سے اپنے کالج کے ساتھیوں میں سے اپنی مرضی کے دوست بنائے تھے۔ کئی سال بعد میں خالسا کالج میں راج کپور سے ملا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ راج کپور کے دادا بشیشور ناتھ کپور پشاور میں ہم سے ملنے آتے رہتے تھے۔ اور دونوں خاندان بمبئی میں بھی اسی گرمجوشی اور جوش کے ساتھ ملے جس کے لئے پٹھان مشہور ہوتے ہیں۔
دونوں خاندانوں کا آپس میں مزے سے ایک ہی زبان پشتو میں بات کرنا دونوں کیلئے ہی اپنے آپ میں ایک اہم بات تھی۔
آغا جی میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت و قابلیت تھی،یہ ایک ایسی خاصیت و خوبی ہے جو مجھے ان سے وراثت میں ملی ہے۔ وہ پشتو اور لاہوریوں والی پنجابی،فارسی اور اردو کے علاوہ اس حد تک انگریزی بھی بول لیتے تھے جو ان کے انگریزی بولنے والے دوستوں کی سمجھ میں آ جاتی تھی۔ جب ہم بمبئی منتقل ہوئے تو وہ ہندوستانی اور گجراتی زبان سے بھی واقف ہو گئے جو ان کے میمن اور بوہرہ دوست بولتے تھے۔ میمن اور بوہرہ مغربی انڈیا میں نسلی مسلمانوں کی برادریاں ہیں۔
بمبئی میں ہمارے گھر میں ہمیشہ آغا جی اور اماں کے دوستوں کو خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ ناگ دیوی اسٹریٹ میں جہاں ہم رہتے تھے،اس بلڈنگ کے بالکل ساتھ دودو منزلہ مکان تھے،جن میں میمن اور بوہرہ خاندان رہائش پذیر تھے۔ ان خاندانوں کی خواتین کے اماں اور میری بڑی بہن سکینہ کے ساتھ بڑے دوستانہ تعلقات تھے۔ ایک میمن خاتون،جس کا نام بیسابی تھا،وہ روزانہ دوپہر کو ہمیں ملنے آتی تھی اور اماں کے ساتھ لمبی لمبی،نا ختم ہونے والی گفتگو کرتی تھی اور اس گفتگو کے دوران صرف وقفے وقفے سے لگنے والے بھرپور قہقہے ہی گفتگو میں تعطل کا باعث بنتے تھے۔ وہ اماں کی دیوانی تھی اور اکثر اوقات وہ میری شکل و صورت بارے اپنے توصیفی کلمات سے مجھے پریشان کرتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب میں اپنی عمر کے بیسویں سال میں بھی داخل ہو گیا تھا تو تب بھی میں اپنے شرمیلے پن پر قابو نہیں پا سکا تھا۔ میں راج سے حسد کیا کرتا تھا جو اس وقت تک میرا دوست بن چکا تھا کیونکہ دونوں خاندان پشاور کے دنوں کی دوستی کو آگے بٹھاتے ہوئے ایک بار پھر سے قریب آ گئے تھے۔ راج ہمیشہ لڑکیوں سے آسانی سے بات کر لیا کرتا تھا اور اپنی دوستانہ و ملنسار طبیعت اور قدرتی دلکشی کی وجہ سے وہ کالج میں کافی مقبول و معروف تھا۔ اس مرحلے پر اگر مجھ میں کوئی چیز متاثر کن و قابل ستائش تھی،تو وہ کھیلوں میں میری کارکردگی اور اردو اور انگریزی ادب سے میری واقفیت و شناسائی تھی۔
میدان میں فٹ بال یا ہاکی کھیلتے ہوئے میں مکمل طور پر پُر سکون ہوتا تھا اور باقی تمام چیزوں کو بھول کر صرف کھیل پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ فٹبال وہ کھیل تھا جس سے مجھے محبت تھی اور جسے میں سنجیدگی سے اور پیشہ ورانہ طور پر کھیلنا چاہتا تھا۔ میں اپنے جیب خرچ کا ایک ایک روپیہ جمع کرتا تھا تا کہ میں جنوبی بمبئی میں میٹرو سینما کے قریب دکان سے کھیلوں والے مہنگے اور آرام دہ جوتے خرید سکوں۔
میں میٹرو سینما کے پیچھے میدانوں میں،جہاں ہم کھیلتے تھے اور ہمارے پریکٹس سیشنز بھی وہیں ہوتے تھے،چل کر جایا کرتا تھا۔ اگر میں کالج کے بعد جنوبی بمبئی میں واقع کوپریج گراؤنڈ میں یا جہاں بھی میچ کھیلا جا رہا ہوتا تھا،میچ دیکھنے چلا جاتا تھا اور اگر میں آغاجی سے زائد رقم کا تقاضا کرتا تھا تو آغاجی بُرا نہیں مناتے تھے۔ وہ اس خیال سے خوش تھے کہ ان کا یہ بیٹا جس سے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور OBE سے منسلک ہونے جیسی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت لائبریری میں گزارتا تھا اور کالج میں مشکل سے ہی کوئی لیکچر چھوڑتا تھا۔
جاری ہے۔ اکیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں