شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . چودہویں قسط‎

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . چودہویں قسط‎
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . چودہویں قسط‎

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی انکی اپنی کہانی،دلچسپ ،حیرت انگیز۔۔۔ روزنامہ پاکستان میں قسط وار۔ترجمہ : راحیلہ خالد

آغا جی نے جو اپارٹمنٹ کرائے پر لیا تھا وہ کرافورڈ مارکیٹ کی ہلچل کے قریب،ناگ دیوی اسٹریٹ پر چار منزلہ عمارت میں تھا جسے عبداللہ بلڈنگ کہا جاتا تھا۔ جہاں انہوں نے پہلے پہل تھوک کی بنیاد پر اپنا پھلوں کا کاروبار شروع کیا تھا۔ ہمارا اپارٹمنٹ سب سے اوپر والی منزل پر تھا۔ ہمیں پورا پورشن ملا ہوا تھا جس میں کافی جگہ تھی اور ہم سب بہت اچھے سے رہتے تھے۔ وہاں اماں اور آغا جی کے الگ کمرے اور مہمانوں کے کمرے کے علاوہ ہم سب بچوں کے الگ الگ کمرے تھے۔ وہاں ایک بالکنی بھی تھی جو کہ آسائش شمار ہوتی تھی کیونکہ ہمسائے کے دوسرے گھروں میں بالکنی نہیں تھی۔ ان سب کے پاس صرف ہموار چھتیں تھیں۔ 

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . تیرہویں قسط‎ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اماں کو پہلے پہل صرف ایک پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا،وہ ہندی نہیں بول سکتی تھیں۔ لیکن یہ بات حیران کن تھی کہ انہوں نے ہمسائے میں سہیلیاں کیسے بنا لی تھیں۔
دراصل ہمارے اس علاقے میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی ہم ایک اچھی پٹھان فیملی کے حوالے سے جانے پہچانے جانے لگے تھے جو عبداللہ بلڈنگ کی چوتھی منزل پر رہتے تھے۔ اماں اپنے تیکھے نقوش،بے داغ گلابی رنگت،پتلی دبلی ہئیت اور مہربان مسکراہٹ کی وجہ سے گرم جوشی کا فوری تاثر دیتی تھیں۔ آغا جی اپنے قبیلے کے زیادہ تر لوگوں کی طرح مضبوط جسم کے مالک اور بہادر آدمی تھے اور وہ پہلے ہی وہاں ایک شریف اور پرہیزگار پٹھان کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔
اماں کی ناگ دیوی اسٹریٹ میں دو سہیلیاں تھیں جو ان کے قریب تھیں۔ لیکن یہ بات آغا جی کیلئے ہمیشہ ایک راز ہی رہی کہ وہ اماں کے ساتھ بات چیت کیسے کرتی تھیں کیونکہ اماں ہندی نہیں بول سکتی تھیں۔ ان میں سے ایک کا بیٹا تھا جس کے ساتھ میرے بڑے بھائی نور صاحب نے گہرا تعلق بنا لیا تھا۔ نور صاحب اپنی جرأت مندانہ و نڈر فطرت کی وجہ سے کچھ عرصے میں ہی ناگ دیوی اسٹریٹ میں مشہور ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی عمر کے دوسرے لڑکوں کی طرح سگریٹ سے تجربے کرنے شروع کر دیے تھے۔ اور یہ سب کچھ خفیہ طور پر دلیرانہ انداز میں اور کچھ دریافت و ایجاد کرنے کے جذبے سے کیا جاتا تھا جو عام طور پر نوجوانی میں لڑکوں میں پایا جاتا ہے جو مردانگی حاصل کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔
ایک دوپہر اماں کیلئے ایک بری خبر آئی۔ ان کی دوست کے بیٹے کو اس کے کمرے میں تکیے کے ساتھ سانس بند کر کے مار دیا گیا تھا اور لڑکے کی ماں بہت صدمے میں تھی۔
مجھے ایک بار پھر مُردے کو دیکھنے سے پیدا ہونے والے خوف کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور میں نے پھر وہی پولیس والوں کا آنا جانا دیکھا۔ لیکن اب میں کچھ بڑا ہونے کی وجہ سے کم خوفزدہ ہوا تھا۔ لیکن اماں بہت زیادہ دکھی و پریشان تھیں۔
ہم ناگ دیوی اسٹریٹ پر واقع اس بڑے اپارٹمنٹ میں بہت خوشی خوشی پلے بڑھے۔ آغا جی اپنے پھلوں کے کاروبار سے مطمئن نظر آتے تھے جو پھل پھول رہا تھا۔ وہ کرافورڈ مارکیٹ میں اپنی پھلوں کی دکان پر روزانہ نہیں جاتے تھے کیونکہ انہوں نے پھلوں کی کھیپ کو وصولنے اور انہیں مارکیٹ تک پہنچانے کے علاوہ روزانہ کی بِکری کو دیکھنے کیلئے بھی ملازم رکھے ہوئے تھے۔ وہ روزانہ اپنی دکان کا صرف ایک چکر لگاتے تھے یہ دیکھنے کیلئے کہ سب ٹھیک ہے۔ اس طرح ان کے پاس ہمارے اور اپنے ان دوستوں کے ساتھ گزارنے کیلئے وقت ہوتا تھا جو ان کی صحبت کو پسند کرتے تھے اور روزانہ ان سے ملنے آتے تھے۔
ہمارے ایک خاندانی ڈاکٹر تھے جو لمبے قد کے مضبوط و طاقتور جسم کے مالک تھے اور میں بڑے واضح طور پر ان کے ہمارے گھر آنے اور ہمارے شام کے اوقات میں ان کے کلینک جانے کو یاد کر سکتا ہوں جب وہ مریضوں کا معائنہ کرتے اور انہیں دوائیں تجویز کرتے تھے۔ آغا جی انہیں اکثر پھلوں کی ٹوکریاں تحفے میں دیتے تھے۔
ایک دن ایک مضحکہ خیز واقعہ پیش آیا جب آغا جی ایوب صاحب کی دوائی لینے،مجھے اپنے ساتھ کلینک لے گئے۔ میں اپنے ساتھ ایک ربڑ کی گیند لئے ہوئے تھا،جس کے ساتھ میں کھیل رہا تھا اور اسے زمین پر اچھال کر اپنی گیند پکڑنے کی صلاحیت جانچ رہا تھا۔ کلینک پہ آغا جی نے ڈاکٹر کے ساتھ دس منٹ کی اچھی خاصی بات چیت کی اور کمپاؤنڈر سے دوائی لینے کیلئے باہر آ گئے۔ میں برآمدے میں گیند سے کھیل رہا تھا اور جیسے ہی میں نے آغا جی کو ڈاکٹر کے کمرے سے نکلتے دیکھا،میرے ہاتھ سے گیند چھوٹ گئی اور زمین پر گِر کر رینگتے ہوئے ڈاکٹر کے کیبن میں چلی گئی۔
جس دوران آغا جی کمپاؤنڈر سے دعا سلام کر رہے تھے،میں نے گیند ڈھونڈنے کیلئے جلدی سے ڈاکٹر کے کیبن میں جانے کی جرأت کی۔ میں گھٹنوں کے بل گیند ڈھونڈ رہا تھا اس لئے ڈاکٹر نے نہ ہی مجھے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا اور نہ ہی اسے میری کوئی آہٹ سنائی دی۔ میں نے گیند ڈھونڈ لی اور ایک ایسا نظارہ بھی دیکھا جو میں نے گھر آ کر ایوب میاں کی دلچسپی کے لئے انہیں سنایا۔
ڈاکٹر کی نرس جو گوری رنگت اور ہلکے رنگ کی آنکھوں والی گول مٹول خاتون تھی اور اس نے اپنے براؤن رنگ کے بالوں کی اونچی سی اسٹائلش پونی کی ہوئی تھی۔ وہ ڈاکٹر کی گود میں بیٹھی تھی اور وہ کسی چیز بارے بات کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ میں جلدی سے گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے کیبن سے باہر نکل آیا۔
میں محبت و الفت اور گرمجوشی کے ماحول میں پلا بڑھا۔ میں بہت زیادہ شرمیلا تھا لیکن ناخوش نہیں تھا۔ میرے والدین پہ کوئی دباؤ نہیں تھا۔ بمبئی میں اماں پہ کام کا بوجھ کافی حد تک کم ہوا تھا کیونکہ یہاں انہیں صرف اپنے بچوں اور خاوند کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ وہ صحتمند اور خوش باش دکھائی دیتی تھیں تاہم وہ اکثر بڑے افسردہ انداز میں پشاور بارے بات کرتی تھیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ خوش ہو کر کام کرتی تھیں۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔