سولہویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی

سولہویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی
سولہویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ترجمہ : راحیلہ خالد

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جیسے ہی معاملہ بے نقاب ہوا ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور نور صاحب کا خفیہ رومانوی تعلق ظاہر ہو گیا۔ اگلے دن ہی لڑکی غائب ہو گئی اور نور صاحب خالی پن اور ویرانی کی تصویر بن گئے۔ وہ مجھ سے خفا نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں نے جان بوجھ کر ان کے رومانس کو برباد نہیں کیا تھا۔ وہ ایک بچے کا معصومانہ اعتراف تھا اور جیسے جیسے دن گزرتے گئے انہوں نے اپنے آپ کو سمجھا لیا کہ محبت کی حقیقی کہانیوں کا انجام ہمیشہ خوش کن نہیں ہوتا۔
اس لڑکی کو زبردستی سورت لے جایا گیا ،جو اب گجرات ( انڈیا ) میں ہے،جہاں اس کی شادی ہو گئی اور وہ وہیں آباد ہو گئی۔ اس کے والدین نے آغا جی اور اماں سے اسی طرح پیا و محبت سے ملنا جلنا جاری رکھا۔ اور نور صاحب نے سب کی خوشی و اطمینان کیلئے ماضی کو بھلا دیا اور خوشی کے نئے ذرائع تلاشنے شروع کر دئیے۔

پندرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جیسے جیسے ایوب صاحب بڑے ہوئے،ان کو سانس کی بیماری لاحق ہو گئی۔یوں ہم انکی خاطر دیولالی منتقل ہونے پہ مجبور ہوگئے۔ یہ مہاراشٹرا میں ایک پہاڑی مقام ہے جو بمبئی سے 180 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ وہاں دیولالی میں تازہ ہوا اور طبی دیکھ بھال کی فراہمی نے اس جگہ کو ایوب صاحب کے علاج اور صحت کی بحالی کیلئے ایک مثالی مقام بنا دیا تھا۔ ایک فوجی مقام ہونے کے ناتے،دیولالی میں اچھے تعلیمی ادارے تھے اور ان میں سے ایک بارنس اسکول تھا جہاں مجھے داخل کروایا گیا۔ فوجی اداروں میں ایسے فوجی تھے جو بھارتی نہیں دکھتے تھے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ ترک تھے جو جنگ کے نتیجے میں قیدی بنائے گئے تھے۔
دیولالی،میری زندگی میں ایک سے زیادہ حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ پہلا حوالہ یہ کہ میں نے انگریزی زبان دیولالی میں ہی سیکھی اور اس میں کافی ماہر ہو گیا تھا۔ دوسرا حوالہ یہ کہ دیولالی میں ہمارے قیام کے دوران ہی میں نے فٹ بال کے کھیل میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔
آغا جی ہفتے میں ایک دفعہ بمبئی سے ہمیں ملنے آتے تھے۔ وہ میرے بھائی ایوب سے پیار کرتے تھے اور اس کی صحت کی بہتری بارے فکر مند رہتے تھے۔ وہ مجھے انگریزی بولتے اور لکھتے دیکھتے اور یہ بات بھی ان کے دل کو خوشی پہنچاتی تھی۔ میں نے اسکول میں،ایک انگریزی نظم سیکھی تھی جو ایک دن میں نے آغا جی کے سامنے سنائی تو وہ اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے وہی نظم مجھے اپنے چنیدہ انگریزی بولنے والے دوستوں کے سامنے سنانے کے لئے کہا۔ وہ نظم کچھ یوں تھی :
میری دو آنکھیں ہیں
اور میں دروازے کو دیکھ سکتا ہوں
چھت کو،دیوار کو
اور بڑا نیلا آسمان
ان سب کے اوپر جھکا ہوا ہے۔
اسکول کی چھٹیوں کے دوران ہم دادا،دادی کے ساتھ وقت گزارنے پشاور جاتے تھے۔ اور ہماری وہاں آمد پہ ہماری عزت افزائی کیلئے سماجی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ ہر محفل میں مجھے ایک چبوترے پر کھڑا کر دیا جاتا اور نظم سنانے کے لئے میری بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی۔ آغا جی دنیا کو یہ بتانے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے کہ ان کے بیٹے کو انگریزی زبان آتی تھی اور ان کے تمام پٹھان دوست بھی میری اس کامیابی پر اتنا ہی خوش ہوتے تھے۔ اگر محفل میں عوامی انتظامیہ میں سے کسی درجے کا انگریز افسر بھی موجود ہوتا تو اس کی موجودگی ماحول کو اور بھی زیادہ سنسنی خیز و پُر جوش بنا دیتی تھی۔ ہر بار جب میں نظم سنا چُکتا تو مقرر مقرر کی صدائیں گونجنے لگتیں۔ اور ’ شاباش یوسف ‘ کی آوازیں سنائی دیتیں۔ ہر بار مجھے نظم دوبارہ سے شروع کرنی پڑتی۔
پھر مقرر مقرر کی آوازیں دوبارہ سنائی دینا شروع ہو جاتیں اور میں اپنے آپ کو سیدھا کرتا،گہرا سانس لیتا اور ایک بار پھر سے نظم سنانا شروع کر دیتا۔
یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا،یہاں تک کہ میں تھک جاتا اور نظم دوبارہ سنا سکنے کی حالت میں نہ ہوتا۔ میرے لئے یہ ایک ایسی چیز ہوتی تھی جس سے میں ہمیشہ کنی کترانے و دور بھاگنے کی کو شش کرتا تھا۔ ایک شرمیلے اور لئے دئیے رہنے والے نوجوان کی حیثیت سے میں لوگوں کی اپنی جانب توجہ کو زیادہ پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن میرے خیال میں قسمت نے پہلے سے ہی اس زندگی کا نقشہ کھینچنا شروع کر دیا جو مجھے آگے جا کر جینی تھی۔
ان مواقع پہ مجھے آغا جی کے احکامات ماننا پڑتے اور جبکہ کھلی ہوا میں جہاں نہ تو کوئی دروازہ ہوتا تھا،نہ دیوار اور نہ ہی کوئی چھت،وہاں نظم سنانا مشکل ہوتا تھا۔ میرے خیال میں،ایسے حالات میں مجھے لوگوں کی جانب سے سجائی جانے والی تالیوں اور مقرر مقرر کی صداؤں سے حوصلہ افزائی و تقویت ملتی تھی۔ اور جب میں نظم سنا رہا ہوتا تھا تب مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے مجھے دروازہ،دیوار اور چھت نظر آ رہے ہوں۔ میرے ہاتھ میں میرا پہلا برش تھا جس سے میں نے اپنی فرضی و خیالی دنیا میں کئی سال بعد اپنے اہم داخلے کی تصویر بنانی تھی۔
(جاری ہے. اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)