اٹھارہویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی
ترجمہ : راحیلہ خالد
اماں یقیناًً بہتر جانتی تھیں۔ انہوں نے اپنی نرم آواز میں مجھ سے کہا،
’’ مجھے امید ہے کہ تم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے تم مجھ سے چھپاؤ۔‘‘
میں نے صرف اپنے سر کو جنبش دی اور اپنی نظریں جھکائے رکھیں جب تک اماں کمرے سے باہر نہیں چلی گئیں۔ ہمیشہ کی طرح اماں کو کچن میں یا باغ میں یا پچھلے صحن میں کوئی کام تھا۔
میں یہ سوچنے لگا کہ اگلے دن اسکول میں کیا ہو گا۔ پرنسپل کو شکایت موصول ہو گی اور مجھے اپنے دوستوں سمیت بلایا جائے گا۔ میں نے پورے خلوص سے یہ خواہش کی کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ میرا امن پسند ضمیر الجھن کا شکار تھا۔ مزید یہ کہ میرے اندر کا پٹھان اس بات سے بے سکون تھا کہ جس طریقے سے ہم نے اسے اکیلے پکڑا تھا،وہ بے خبر تھا اور اس نے کوئی جوابی کارروائی بھی نہیں کی تھی۔
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی۔۔۔17ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگلے دن میں صبح سویرے اسکول پہنچا۔ میں نے بیکری والے اور اس کے بیٹے کو پرنسپل کے کمرے میں دیکھا۔ کچھ لفظوں کے تبادلے کے بعد،وہ دونوں باہر آئے اور اس لڑکے کو اس کی کلاس میں جانے کا کہا گیا۔
چند لمحوں بعد میں نے آغا جی کو تیز تیز قدموں سے سیدھے چلتے پرنسپل کے آفس کی طرف جاتے دیکھا۔ انہوں نے بھی پرنسپل کے ساتھ چند باتیں کیں اور باہر آ گئے۔ میں سانس روکے حیرانی سے یہ بات سوچ رہا تھا کہ آغا جی کو میرے اسکول کیوں بلایا گیا تھا۔ میری حیرانی و تجسس کو بڑھاوا دینے کے لئے،پرنسپل باہر آگیا۔ اور وہ سب باتیں کرنے اور ہاتھ ملانے لگے۔ اس لڑکے کا باپ بڑے ادب و احترام سے آغا جی کے سامنے کھڑا تھا اور آغا جی کی باتیں سن رہا تھا۔ آخر میں،آغا جی نے اس بیکری والے کے کندھے کو تھپتھپایا اور وہ دونوں اکٹھے اسکول سے باہر چلے گئے۔
میں اپنی جماعت میں گیا اور پہلی صف میں بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے دوستوں کو دیکھا وہ خوش نظر آ رہے تھے۔ پھر میں نے اس لڑکے کی طرف دیکھا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا۔ جب اسکول کی چُھٹی ہوئی تو وہ لڑکا ہمارے ساتھ ہنستے اور باتیں کرتے ہوئے گھر کی طرف چل دیا،ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ایک لڑکا ہونے کی حیثیت سے میں،دیولالی کے سرسبز ماحول میں بہت خوش تھا۔ اپنا بچپن پشاور کے کھلے علاقوں و جگہوں میں گھومتے پھرتے اور صاف و تازہ ہوا میں سانس لیتے ہوئے گزارنے کے بعد،دیولالی آنا میرے لئے بے حد خوشی کی بات تھی۔ جب ہم دیولالی پہنچے تو مجھے یہ انوکھا احساس ہوا کہ جیسے میں دوبارہ سے اپنا بچپن پشاور میں گزار رہا ہوں۔ دیولالی کی بھوری و سرخ مٹی کی خوشبو،پشاور کی مٹی جیسی تھی اور مون سون کے دنوں میں سرسبز اونچی ڈھلوان دار پہاڑیاں،میرے نوجوان دل کو پرانی یادوں سے بھر دیتی تھیں۔ وہاں کی آب و ہوا بہت اچھی تھی اور ہمارے باغ میں پھول اور پھل اچھے سے ہوتے تھے۔ ہمارے باغ کی دیکھ بھال ایک شوخ و چنچل مالی کرتا تھا اور اس کی بیوی یو پی (UP) کی بولی و لہجے میں بات کرتی تھی،جو مجھے بہت دلچسپ لگا کرتا تھا۔
بہت سالوں بعدجب میں گنگا جمنا فلم،جو 1961 ء میں منظرِ عام پر آئی تھی،کے مکالموں پر کام کرنا شروع کیا تو اس کا وہ لہجہ و بولی بار بار میرے ذہن میں آتی اور کانوں میں گونجتی تھی۔ اماں اکثر مجھے مالی کے گھر یا تو اسے فوری طور پر بلانے یا پھر جو چیزیں آغاجی بمبئی سے لاتے تھے،ان میں سے کچھ حصہ دینے کیلئے بھیجا کرتی تھیں۔ اماں ہمیشہ اپنے ملازموں پہ مہربانیاں کرتی رہتی تھیں۔ وہ ان سے ہمیشہ نرم اور مہربان لہجے میں بات کرتیں۔ یہاں تک کہ جب وہ ان سے ناراض ہوتیں یا انہیں ڈانٹتیں تب بھی وہ ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھتی تھیں۔
جب میں نے فلم گنگا جمنا کے اسکرپٹ میں محل وقوع بیان کرنا شروع کئے تو ایک خوبصورت و دلکش جگہ ہونے کے ناتے دیولالی نمایاں طور پر میرے خیالات و تصورات میں اجاگر ہوا۔ جب میں نے اپنے ذہن میں فلم گنگا جمنا کے لئے مقامات کی تصویر کشی کی تو پہاڑیاں،میدان اور بل کھاتے ندی نالوں کے کناروں پر ہر قسم کے گھنے جنگلی پیڑوں کی قطاریں میری آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہو گئیں۔
ماضی کا جائزہ لیا جائے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب میں نے فلم گنگا جمنا کے بنیادی تنازعات اور ڈرامائی مناظر کا سرسری سا خاکہ کھینچا تو دیولالی نے میری تخلیقی سوچوں و تصورات کو ایسے محرک کیا جیسے پشاور کی زمینوں اور قلعوں اور پہاڑوں اور وادیوں نے کیا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے اس عقیدے پہ ایمان لانے پہ مائل کیا کہ بچپن میں جو باتیں خفیہ طور پر لاشعور میں پختہ ہو جاتی ہیں وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ایک ان چاہے ملاقاتی کی طرح جلوہ افروز ہوتی ہیں،جو آپ کو حیران کرنے کیلئے چپکے سے پچھلے دروازے سے گھُس آتا ہے۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں