دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ تیسویں قسط
نظام الدولہ
آغا جی سے ملاقات خلاف توقع بہت اچھی رہی۔باپ بیٹا گرم جوشی سے ملے۔انہوں نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور قطعاً گلہ شکوہ نہیں کیا ،ان کا رویہ میرے لئے باعث سکون تھا۔
عید کا تہوار گرمجوشی سے گزرا ،محلے داروں اور عزیزوں کو اس موقع پر بلایا گیا اور سب کے ساتھ مل کر خوب رونق جمی رہی۔یونہی ایک ہفتہ بیت گیااور ایک روز آغا جی اور میں جب سیب کے باغ کے بارے میں باتیں کررہے تھے تو تو انہوں نے مجھ پر ایک ذمہ د اری یوں ڈالی کہ مجھ پر ان کا مکمل اعتماد نظر آیا۔گویا میں انکی نظروں میں اب پختہ اور کاروباری سمجھ بوجھ رکھنے والا نوجوان تھا ۔
آغا جی نینی تال میں سیبوں کا ایک باغ خریدنا چاہتے تھے اور اسکا سودا کنفرم کرنے کے لئے وہ مجھے بھیجنا چاہتے تھے ۔مجھے بہت اچھا لگا کہ میں انکی نظروں میں اہمیت بنا چکا تھا۔
آغاجی نے مجھ سے ڈبہ بند آڑووں کے کاروبار کا نیا آئیڈیا بھی شئیر کیا ۔یہ بہت اچھا خیال تھا،وہ با توں ہی باتوں میں مجھے کاروبار میں ملوث کئے جارہے تھے ۔سینڈوچ کاروبار نے مجھے یہ شعور عطا کردیا تھا کہ کاروبار کیسے کرنا چاہئے اور ڈیل میں رویہ کیسا کامیاب ہوتا ہے۔
انتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نینی تال کے باغ میں مجھے دلچسپی پیدا ہوگئی اور ویسے بھی میں ایک اور کاروبار کرنے کا سوچ رہا تھا ۔یہ مورکے پروں سے تکیہ بنانے کا کاروبار تھا اور میں نے اس شخص سے رابطہ کرکے خاصی معلومات لے رکھی تھیں جومورپنکھ میں مہارت رکھتا تھا۔یہ تکئے نرم وگداز ہونے کی وجہ سے امرا میں بہت پسند کئے جاسکتے تھے۔ لہذا میں نے زر ضمانت جمع کراکے مورپنکھ تکئیے کی فروخت کمیشن پر شروع کردی۔
مجھے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ میں غلط کاروبار میں ہاتھ ڈال بیٹھا ہوں ۔تھوڑا بہت نقصان بھی ہوا اور پھر میں نے سوچا کہ مجھے جلد از جلد نینی تال چلے جانا چاہئے اور سیبوں کے باغ کا سودا کرنا چاہئے۔آغا جی بھی یہی چاہتے تھے۔
میں جب نینی تال پہنچااور باغ کے مالک سے ملا تو آغا جی کا سن کر وہ بے حد مسرور ہوا۔وہ ان کی بہت زیادہ عزت کرتا تھا۔میں نے دیکھا کہ اسکا باغ آدھے سے زیادہ ٹڈی دل نے تباہ کردیا ہے ،باقی ماندہ بھی واجبی تھا۔وہ اپنی زمین اور باغ فروخت کرنا چاہتا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ میں زیادہ تجربہ کار تو نہیں لیکن ہمیں سودے کی بات کرنی چاہئے۔وہ نیک آدمی تھا اور اس نے مجھ سے کہا’’ میں صرف ایک روپیہ زر ضمانت لوں گا اور پھر جو سودا ہوگا جا کر آغا جی سے کہہ دینا‘‘ خیر اس سے جو بات طے پائی واپس جا کر آغا جی کو بتائی تو وہ اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ ان کی توقع سے زیادہ بہتر انداز میں سودا کیا گیا تھا اور باغ کی بابت تفصیل جان کر تو انہیں یقین ہوگیا کہ میں ایک کامیاب تاجر بن سکتا ہوں ۔لہذا انہوں نے حساب کتاب کی ذمہ د اریاں میرے سپرد کردیں ۔
میں آغا جی کے اعتماد پر پورا اترنا چاہتا تھا لیکن اندر ہی اندر مجھے لگتا تھا کہ میں کچھ غلط کررہا ہوں۔یہ سمت وہ نہیں جس پر مجھے چلنا تھا ،میں تو کسی اور کام کے لئے بنا تھا لیکن کس کام کے لئے،اسکا فی الحال شعور نہیں تھا۔(جاری ہے)