پاک انگلینڈ سیریز ,پاکستان نے اس بار اپنے ہاتھوں رسوائی کمائی ہے

پاک انگلینڈ سیریز ,پاکستان نے اس بار اپنے ہاتھوں رسوائی کمائی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بورڈ میں موجود لابیاں کھیل میں کامیابی کا راستہ روکے ہوئے ہیں
سلیکشن کمیٹی برائے نام ہے فیصلے تو بڑوں کی سفارش پر کئے جاتے ہیں
مصباح بطور کپتان بہترین ثابت ہوئے، اظہر اور آفریدی امیدوں پر پورا نہ اترسکے

پاکستان انگلینڈ سے ٹی ٹونٹی سیریز3-0 سے ہار گیا ہے او ر بدترین شکست کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر یہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ساتھ مینجمنٹ پر بھی شکست کی ذمہ داری عائد ہوتی لیکن افسوس کی بات ہے کہ سیریز کے بعد مستقبل کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل طے کرنے کے بجائے اور درست اقدامات کی بجائے اس بات کو بھو ل دیا جائے گا سیریز کے ہار نے پر بہت شور مچا کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور آئندہ ایسی حکمت عملی طے کریں گے کہ ٹیم جیتے گی لیکن یہ صرف دعوؤں کی حد تک ہی ہے اور مستقبل میں بھی ایسی ہی ناقص کھیل کی امید رکھنی چاہئیے پاکستان کرکٹ بورڈکھیل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی نوکریاں بچائے اور پیسہ کمانے کے چکر میں ہیں ان کو کھیل کی ترقی کی کوئی پرواہ نہیں ہے کھیل میں سیاست کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے او رجب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک ہم کیسے ترقی کرسکتے ہیں ہر ایک اپنی مرضی کا کھلاڑی تو ٹیم میں شامل کروانا چاہتا ہے اور اسی طرح پی سی بی میں مضبوط لابیاں ہی اس کھیل کو تباہ کرنے کی اصل ذمہ دار ہیں جن میں سلیکشن کمیٹی کی بھی نااہلی ہے کیونکہ اس پر اس قدر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی توکرہی نہیں سکتا اور مختلف سفارشوں پر کھلاڑیوں کو شامل کرلیا جاتا ہے ان کی کارکردگی کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی سفارش دیکھی جاتی ہے اور اس کو ٹیم میں شامل کرلیا جاتاہے اگر مستقبل میں بھی یہ ہی سلسلہ چلتا رہا تو پھر ٹیم سے اچھے کھیل کی امید کیسے کی جاسکے گی اوپنر رفعت اللہ کی بات کی جائے تو اس نے ٹی ٹونٹی میں اپنا ڈیبیو کیا تھا اور اس نے تینوں میچ کھیلے اور اوپننگ کی لیکن اس نے کیا کیا اس کو کیوں کم سکو ر کرنے کے باوجود ٹیم میں شامل کیا گیا اسی طرح احمد شہزاد جس کو پہلے ٹی ٹونٹی میچ میں ان فٹ ہونے کی وجہ نہیں کھیلایا گیا لیکن پھر اگلے ہی دن کھیلے جانے والے دوسرے ٹی ٹونٹی میں اس کو شامل کرلیا جاتا ہے سلیکشن کمیٹی ان باتوں پر توجہ کیوں نہیں دیتی ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے ایک ٹیم کا انتخاب کیا جائے اور اس کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جائے جو مستقل اچھی پرفارمنس دکھا رہے ہیں تاکہ وہ ٹیم کے لئے اچھی پرفارمنس دیں اب تجربات کا وقت گزر گیا ہے کوچ وقار یونس کا ٹیم کی شکست پر سامنے آنے والا بیان بھی حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے کہا کہ ٹیم نے ایسے کھیلا جیسے بچے کھیلتے ہیں تو اس کا ذمہ دارکون ہے وہ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں اور اگر وہ ایسی بات کریں گے تو پھر ٹیم کو درست کون کرے گا اس وقت ٹیم کو دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور جب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عمدہ کھیل پیش نہیں کرتی اس وقت تک مستقبل میں بھی ٹیم کے لئے کامیابیاں حاصل کرنا بہت مشکل ہے کپتان آفریدی کی بات کی جائے تو انہوں نے اپنی کپتانی میں ایک تو تینوں ٹاس ہارے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو تینوں میچوں میں شکست بھی ہوئی وہ بطور کپتان مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں مجموعی طور پر انہوں نے بطور بیٹسمین اور باؤلر تو عمدہ پرفارمنس دکھائی لیکن بطو ر کپتان وہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے اور اب تک وہ ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف ایک بھی میچ جتوانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں وہ اور اظہرعلی تو ناکام ثابت ہوئے لیکن مصباح الحق کی کپتانی میں ٹیم جس طرح عمدہ پرفارمنس دکھارہی ہے اسی طرح ٹی ٹونٹی اور ون ڈے میں بھی ٹیم کو عمدہ پرفارمنس دکھانا ہوگی دوسری جانب نگلینڈ کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستانی بیٹسمین مکمل طور پر ناکام رہے۔ نہ ٹاپ آرڈر چل سکا نہ مڈل آرڈر نے کمال دکھایا تینوں میچزمیں بیٹسمینوں کی خراب فارمنس پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے۔انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستانی بیٹنگ بری طرح ناکام رہی۔اوپنر رفعت اللہ مہمند تین میچز میں صرف 39رنز بناسکے۔پروفیسر کے فارمولے بھی فیل ہوگئے تین میچز میں صرف33رنز بنائے۔احمد شہزاد کو دو میچز میں موقع ملا۔ مگر وہ دو میچز میں صرف 32 رنز ہی اگل سکا۔عمر اکمل نے تین میچز میں 26 رنز بنائے۔محمد رضوان نے دو میچز میں30 اور سرفراز احمد نے دو میچز میں20 رنز بنائے۔انگلینڈ کے جیمز ونس تین میچز میں 125رنز بناکر مین آف دی سیریز قرار پائے۔شعیب ملک دو میچز میں 101 رنز بناکر پاکستان کے کامیاب بیٹسمین رہے۔پاکستان کر کٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے کہا ہے کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہار آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے، خراب کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو خدا حافظ کہنا کوچ نہیں سلیکشن کمیٹی کا کام ہے۔کھلاڑی سیریز میں ایسے رن آؤٹ ہوئے جیسے اسکول کے بچے ہوں۔ بڑے کھلاڑی بچوں جیسی غلطیاں کریں گے تو ٹیم کیسے جیتے گی۔ شکست کی ذمہ داری صرف کرکٹرز، کوچنگ سٹاف اور سلیکٹرز میں سے کسی ایک پر نہیں ڈالی جا سکتی، سب کو اپنی ذمہ داری کو احساس ہونا چاہئے۔ ہیڈ کوچ نے کہا کہ جن کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی انھیں خدا حافظ کہنا کوچ نہیں سلیکشن کمیٹی کا کام ہے۔ احمد شہزاد اور عمر اکمل پتہ ہونا چاہیے کہ اب وہ بچے نہیں رہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی کارکردگی مایوس کن رہی، سینئرز کھلاڑیوں کا رن آؤٹ ہونا افسوناک ہے۔کھلاڑی سیریز میں ایسے رن آؤٹ ہوئے جیسے اسکول کے بچے ہوں۔ بڑے کھلاڑی بچوں جیسی غلطیاں کریں گے تو ٹیم کیسے جیتے گی۔ کھلاڑیوں کو بڑے میچوں میں دباؤ کا سامنا کرنا سیکھنا ہو گا۔ سپر اوور میں عمر اکمل کو اس لئے بھجوایا تھا کہ وہ جارحانہ کھیل کیلئے مشہور ہیں۔وقار یونس نے کہا کہ ہمارے کھلاڑی انگلش پلیئرزکے مقابلے میں اتنے سپر فٹ نہیں ہیں۔ سیلکٹرز سے پوچھنا پڑے گا ایسا کیسے چلے گا۔ ٹیم منتخب کرنا ان کا نہیں سلیکٹرز کا کام ہے، دستیاب کھلاڑی ہی میدان میں اتارے جائیں گے، انگلینڈ سے سیریز نے بہت کچھ سکھادیا، اب آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ انہوں نے کہا کہ ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی میں ٹیم کی کارکردگی بہت ناقص رہی، اس کی ذمہ داری صرف کرکٹرز، کوچنگ سٹاف اور سلیکٹرز میں سے کسی ایک پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ سب کو اپنی ذمہ داری کو احساس ہونا چاہئے۔ وقار یونس نے کہا کہ ورلڈ کپ قریب ہے، اس سے قبل سب کو مل کر ٹیم کی اچھی کارکردگی کے لئے کام کرنا ہو گا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -