مصطفٰی کمال کا کمال یہی ہو گا کہ پرانی پالیسی سے تائب ہر قومی سیاست ہیں
کاروان مصطفی کمال میں رضا ہارون کا مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ تاثر اور توقع تو یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں پتنگوں کے کٹنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کراچی اور اندرون سندھ قومی سیاست ممکن ہوگی یا نہیں؟ یا یہی نسلی اور لسانی تعصبات کی سیاست کی فضا کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
سندھ میں آباد اردو بولنے والوں کے اس حلقہ میں جو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے اور اپنی بقاء اور تحفظ کے لئے ’’مہاجر عصبیت‘‘ کے نعرہ کے گرد جمع رہنے کو زندگی اور موت کے فریب میں مبتلا ہو چکے ہیں یا حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور عاقبت نااندیش رویوں نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اردو بولنے والے اس حلقے کی بڑی اکثریت کا ابھی تک نجات دہندہ الطاف حسین ہے جس طرح سندھی بولنے والوں کی اکثریت کا نجات دہندہ ابھی تک بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی ہے۔ یہ تو ہے صوبہ سندھ کی وہ زمینی حقیقت جسے نظرانداز کرکے جو بھی توقعات اور امیدیں باندھی جائیں گی۔ وہ درست نہیں ہوں گی۔ سندھ خصوصاً کراچی کے حالات میں جو ’’جوہری‘‘ تبدیلی آئی ہے وہ ہے ایم کیو ایم کے حوالے سے میڈیا مالکان کی پالیسی ،خصوصاً الیکٹرونک میڈیا ہاؤسز اور ان میں کام کرنے والے وہ اینکرپرسن جو ’’ریٹنگ‘‘ کے بیرومیٹر تصور کئے جاتے ہیں اگر میڈیا مالکان ایم کیو ایم کے حوالے سے اسی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھتے۔ جو ماضی قریب تک رہا تو مصطفی کمال کا ظہور ہوتا اور نہ ہی ہمارے معزز محترم تجزیہ نگار وہ حقائق بیان کرنے پر قادر ہوتے جس کا عینی شاہد ہر وہ شخص ہے جو کراچی میں رہتا ہے جس کو ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں کی ذاتی وقتی ضرورتوں اور سیاسی مصلحتوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں نے عملاً ’’مقتل ‘‘ بناکر اسلحہ برداروں کا یرغمال بنا دیا تھا۔ میں اپنے ان محترم اور معزز تجزیہ نگاروں سے جو شعبہ صحافت کے ساتھ طویل عرصہ سے وابستہ ہیں۔ بصد ادب عرض کروں گا کہ ایم کیو ایم کا جنرل ضیاء الحق کے دور میں نہیں بھٹو دور میں 1976ء میں جامعہ کراچی میں ’’بی فارمیسی‘‘ کراچی سے تعلق رکھنے والے میرٹ پر پورا اترنے والے طلبہ کو داخلہ نہ ملنے کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئی تھی جس کا نام ’’اے پی ایم ایس او‘‘ رکھا گیا تھا ’’اے پی ایم ایس او‘‘ کا قیام بھٹو کے کوٹہ سسٹم کے سبب وجود میں آیا تھا۔ 1977ء میں پی این اے کی تحریک کے دوران کراچی اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے پی این اے کے رہنما جن میں مولانا شاہ احمد نورانی (مرحوم) اور پی این اے کے سیکرٹری جنرل پروفیسر عبدالغفور (مرحوم) پیش پیش تھے۔ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کا نعرہ لگاتے تھے اور کراچی اور حیدرآباد کے ہر جلسہ میں یہ اعلان کرتے تھے کہ اب ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کی آڑ لے کر کراچی حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والے نوجوانوں کو (میرٹ پر پورا اترنے والے ) داخلہ سے کوئی محروم نہیں رکھ سکے گا مگر عملاً ہوا اس کے برعکس، بلکہ بعض رہنماؤں نے تو کوٹہ سسٹم کے حوالے سے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں ایک بیان دیا اور لاڑکانہ میں دوسرا۔ جس نے اردو بولنے والوں میں مایوسی پیدا کی۔ رہی سہی کسر 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک اور کابینہ میں شامل سندھی بولنے والے وزراء کے دباؤ میں آکر جنرل ضیاء الحق نے کوٹہ سسٹم کی آئینی مدت جو 1973ء کے دستور میں دس سال کے لئے تھی مزید دس سال کے لئے بڑھا دی جس نے اردو بولنے والوں کی مایوسی میں شدت پیدا کی جس کا فائدہ اٹھا کر 1984ء میں ’’اے پی ایم ایس او‘‘ قائم کرنے والوں نے انتخابی سیاست کے لئے ایم کیو ایم (مہاجر قومی موومنٹ) کا اعلان کیا اس وقت الطاف حسین امریکہ میں تھے۔ ایم کیو ایم کے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق نے اس نامہ نگار کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’’ہم نے ایم کیو ایم کے قیام کا اعلان کرنے سے قبل ٹیلی فون کرکے الطاف حسین سے پوچھا تھا کہ اگر پاکستان آ رہے ہیں تو بتائیں تاکہ آپ کے لئے کوئی عہدہ رکھا جائے مگر الطاف حسین نے جواب میں کہا تھا کہ میں نے واپس آنے کا ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے جو کراچی میں موجود ہیں ان کی مشاورت سے عہدے داروں کا انتخاب کر لیاجائے‘‘۔
1985ء میں الطاف حسین واپس آئے تو عظیم احمد طارق کے مطابق ان کے لئے ’’قائد‘‘ کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کا ایم کیو ایم کے قیام کے اعلان کے وقت کوئی وجود نہیں تھا۔الطاف حسین کی واپسی کے بعد بھی ایک عرصے تک چیئرمین کا عہدہ ہی پارٹی کے اندر فیصلہ کن عہدہ رہا۔ چیئرمین کی حیثیت سے کئی بار عظیم احمد طارق نے الطاف حسین کی باز پرس کی اور ان کے بیان دینے پر پابندی لگائی۔واضح رہے کہ الطاف حسین نے واپسی کا فیصلہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب کے بعد کیا ،جس میں ایم کیو ایم نے خود تو حصہ نہیں لیا مگر اپنے کارکنوں کو انتخابی سیاست کی عملی تربیت کے لئے آزاد امیدواروں کی انتخابی مہم میں فعال کردار ادا کرنے کا حکم دیا۔ ایم کیو ایم کی یہ حکمت عملی دو اعتبار سے بڑی کامیاب رہی۔ایک تو ان کے کارکنوں کو انتخابی سیاست کی تربیت ملی۔ دوسرے انہوں نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو جن میں کراچی میں محمود اعظم فاروقی ،سید منور حسن کو اور حیدرآباد میں میاں محمد شوکت کو ہروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1977ء میں کراچی میں سید منور حسن ملک بھر میں ریکارڈ ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے۔ 1985ء میں وہ غیر معروف کنور قطب الدین کے مقابلے میں شکست کھا گئے۔ محمود اعظم فاروقی جو 1958ء کے بلدیاتی انتخاب سے لے کر ایوب خان کے دور حکومت میں مغربی پاکستان اسمبلی میں اور 1970ء اور 1977ء کے کسی انتخاب میں ناکام نہیں ہوئے تھے۔1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں مہاجر ہونے کے باوجود مہاجر عصبیت کے باعث ہار گئے۔ یہی صورت حیدرآباد میں میاں محمد شوکت (مرحوم) کے ساتھ پیش آتی۔ میاں صاحب نے 1977ء میں اپنے مد مقابل کو 66ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی تھی جو پاکستان بھر میں ریکارڈ برتری تھی مگر 1985ء میں مہاجر عصبیت کے نعرہ ’’مہاجر کا ووٹ مہاجر کے لئے‘‘ نے شکست سے دوچار کر دیا تھا۔
حالانکہ مہاجر محمود اعظم فاروقی بھی تھے اور سید منور حسن بھی، میاں محمد شوکت سے بڑا مہاجر کون ہو سکتا تھا۔ جن کی 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت بیوی،نومولود بیٹے سمیت پانچ ہزار افراد کو ہجرت کرتے وقت مال و اسباب لوٹنے کے بعد تہہ تیغ کر دیا گیا تھا، خود میاں محمد شوکت تین ماہ تک ہندوؤں اور سکھوں کے محاصرہ میں رہنے کے بعد بمشکل پاکستان پہنچ پائے تھے۔ یہ تفصیل اس لئے لکھنا پڑی تاکہ وہ سارا پس منظر سامنے رہے۔ جس میں ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی۔ اس کے قیام کے اسباب پیدا کرنے میں ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور عاقبت نااندیش فیصلوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور ہماری سیاسی جماعتوں کی دوغلی پالیسی نے وہ زمین ہموار کی جس میں سندھ لسانی عصبیت میں جکڑا گیا اور ان سب لوگوں کے لئے مقتل بنا دیا گیا جو لسانی اور نسلی عصبیت کے فروغ کو قومی سلامتی کے لئے شدید خطرہ اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی سازش قرار دے رہے تھے۔ یہ کہنا تو کلی طور پر صحیح نہیں ہے کہ ایم کیو ایم جنرل ضیاء الحق نے بنائی تھی۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ جنرل ضیاء اور اس کے بعد میں بھی سول اور فوجی اسٹیبلشمنت نے اسے ہائی جیک کیا اور اپنی ضرورتوں کے لئے جس طرح چاہا استعمال کیا۔ اب الطاف حسین کی یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 1993ء میں قومی اسمبلی کے انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ جنرل وحید کے دباؤ پر کیا تھا۔ الطاف حسین نے اس وقت کے سندھ میں ایم آئی کے سربراہ بریگیڈیئر عبید کا نام بھی لیا تھا جنہوں نے ان کو جنرل وحید کا پیغام دیا تھا، اس کی تردید آج تک بریگیڈیئر عبید نے کی اور نہ ہی جنرل وحید نے اس کی ضرورت محسوس کی۔ قومی اسمبلی کے انتخاب کے بائیکاٹ کا واحد مقصد مرکز میں بے نظیر بھٹو کو ایم کیو ایم کے ووٹوں سے بے نیاز کرنا تھا۔ 1993ء میں تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخاب سے ایک دن قبل ایم کیوایم کو فری ہینڈ دینے کے لئے جناب میاں نوازشریف نے پورے سندھ میں ایم کیو ایم کے حق میں مسلم لیگ کے تمام امیدواروں کو دستبردار کراکر سندھ کی لسانی اور نسلی تقسیم کو برقرار رکھنے میں جو کردار ادا کیا۔ تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔ اگر 1993ء میں مسلم لیگ کے امیدواروں کو میاں نوازشریف دستبردار نہ کراتے تو سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ کی قابل ذکر نمائندگی ہوتی۔ واضح رہے کہ 1993ء اور 1997ء میں کراچی سے مسلم لیگ کے جن تین امیدواروں نے قومی اسمبلی کے الیکشن جیتے تھے۔ وہ ان حلقوں سے جیتے تھے جہاں ایم کیو ایم کا مضبوط ووٹ بینک تھا ان حلقوں میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی اپیل بھی غیر موثر رہی تھی جس کا ثبوت یہ ہے ایم کیو ایم کے امیدوار جتنے ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کے امیدواروں نے کم و بیش اتنے ہی ووٹ حاصل کئے تھے ۔
1992ء کے آپریشن اور 2013ء سے شروع ہونے والے آپریشن میں بنیادی فرق ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ آپریشن صرف ایم کیو ایم کے خلاف تھا، اگرچہ اس آپریشن کا اعلان بھی اندرون سندھ ڈاکوؤں اور شہری علاقوں میں ’’گن‘‘ کے زور پر شہریوں کو یرغمالی بنانے والوں کے خلاف ہوا تھا۔ مگر عملاً وہ ایم کیو ایم کے خلاف ہی رہ گیا تھا۔ ریاستی مشینری نے ایم کیو ایم کے مستعفی ہونے والے ارکان اسمبلی کی اکثریت کی وفاداری تبدیل کرائی تھی مگر وہ بے نتیجہ اس وجہ سے رہی۔ الطاف حسین کے باغیوں نے بھی اپنی سیاست کا انداز دھونس اور اسلحہ کے استعمال پر رکھا تھا، اب بھی سوال یہی ہے کہ کیا مصطفی کمال کے کارواں میں شامل ہونے والوں کا موثر ہتھیار وہی ہوگا ؟ یا وہ ہوگا جس کا اعلان مصطفی کمال نے یہ کہہ کر کیا ہے۔ وہ زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاست نہیں کریں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر حماد صدیقی جیسے لوگوں کی وکالت کیوں؟ جن کے ’’سنہرے‘‘ کارناموں سے کراچی کا بچہ بچہ واقف ہے۔
اس سے بھی اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کے تمام ادارے جس میں سول اور فوجی قیادت بھی شامل ہے اور (سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ) ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا فیصلہ کر پاتی ہے یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کے مثبت نتائج کے لئے ملک میں جس کو بھی سیاست کرنی ہے۔ وہ دستور پاکستان کے دائرہ کار کے طے کر دہ پیرامیٹر کے اندر کرنے کا پابند ہوگا۔ تب ہی سندھ میں بھی پیپلزپارٹی دوسرے صوبوں کی طرح قومی سیاست کرنے پر مجبور ہوگی اور ایم کیو ایم کی جگہ لینے کے خواہش مند بھی مجبور ہوں گے۔ وہ اپنی صفوں میں ان جرائم میں ملوث لوگوں کو شامل نہ کریں جن کی وجہ سے شہر کراچی اس حال کو پہنچا ہے۔***