صلہ رحمی کی اہمیت اور افادیت!

صلہ رحمی کی اہمیت اور افادیت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو‘ بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔‘‘ (النسآ)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے صلہ رحمی کرنا (رشتوں کو جوڑنا) چاہیے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؒ سے کسی نے پوچھا کہ رحمی رشتہ دار اور قرابت دار کون ہیں؟ کیونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بیوی کے قرابت دار‘ رحمی رشتوں میں سے نہیں ہیں۔
سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ رحمی رشتہ دار وہ ہیں جو تمہاری ماں اور باپ کے نسب سے ہوں۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں‘ اللہ کے حکم میں۔‘‘ (الانفال)
رحمی رشتوں میں سب سے قریبی رشتے ماں باپ‘ بچوں اور بچوں سے جو نسل کا سلسلہ چل پڑے‘ پھر ان میں سب سے قریبی رشتے پھر قریبی رشتے‘ بھائیوں اور ان کی اولاد سے‘ چچا اور چچیاں اور ان کی اولاد‘ پھر ماموں اور خالائیں اور ان کے بچے۔
نبی کریمؐ سے ثابت ہے کہ جب کسی سائل نے آپؐ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تیری ماں‘‘ پھر کون؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تیری ماں‘‘ پھر کون؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تیری ماں‘‘ پھر کون؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تیرا باپ‘ پھر زیادہ قریبی‘ پھر زیادہ قریبی۔‘‘ (مسلم)
لیکن بیوی کے رشتے دار‘ شوہر کے رحمی رشتہ دار نہیں ہیں۔ الا یہ کہ شادی سے پہلے اگر ان کے رحمی رشتہ دار ہوں تو! البتہ (بیوی کے رشتہ دار) شوہر کے بچوں کے رحمی رشتہ دار ہوں گے۔ (فتاویٰ اسلامیہ)
صلۂ رحمی کس چیز میں کی جائے؟
صلۂ رحمی کے مختلف طریقے ہیں‘ جیسا کہ ان سے ملاقات کرنا‘ ہدیہ دینا‘ ان کی خیر وعافیت معلوم کرنا‘ ان کے محتاجوں پر صدقہ کرنا‘ ان کے مالداروں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا‘ ان کے بڑوں کی عزت کرنا‘ اسی طرح ان کی ضیافت کرنا‘ ان کا اچھی طرح استقبال کرنا‘ ان کی خوشیوں میں شریک ہونا‘ ان کے غموں پر غمخواری کرنا‘ اسی طرح ان کے لیے دعا کرنا‘ وسیع الظرف ہونا‘ ان کی دعوت قبول کرنا‘ ان کے مریضوں کی عیادت کرنا‘ اسی طرح ان کو ہدایت کی طرف دعوت دینا‘ ان کو اچھائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا‘ یہ سب کام صلۂ رحمی میں شامل ہیں۔
ابن ابی حمزہؒ فرماتے ہیں کہ صلۂ رحمی کبھی مال کے ذریعے سے ہوتی ہے‘ کبھی خدمت کے ذریعے سے اور کبھی ملاقات کرنے اور سلام کرنے سے۔
صلہ رحمی کرنا واجب ہے‘ اگر وہ تم سے قطع رحمی کریں:
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرے کچھ قرابت دار ہیں‘ میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں۔ میں ان سے اچھائی کا معاملہ کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برائی سے پیش آتے ہیں‘ میں ان کے ساتھ عقلمندی کا مظاہرہ کرتا ہوں اور وہ جہالت ونادانی کا۔ تو نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر حقیقت ایسی ہی ہے جیسا کہ تم بیان کر رہے ہو تو گویا کہ تم ان کے منہ میں گرم راکھ بھر رہے ہو اور جب تک تمہارا ان کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ ہو گا اس وقت تک کے لیے تمہارے دفاع کے لیے اللہ کی طرف سے ایک مدد گار مقرر ہو گا۔ (مسلم)
صلہ رحمی گناہوں کی بخشش کا سبب ہے:
سیدنا ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ایک شخص نبی کریمؐ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے بڑا گناہ کیا ہے‘ کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ تو نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’کیا تمہاری ماں بقید حیات ہیں؟‘‘ تو اس نے کہا کہ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’کیا تمہاری خالہ ہیں؟‘‘ اس نے کہا کہ ہاں‘ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (ترمذی‘ حاکم)
صلہ رحمی رزق اور عمر میں اضافہ کا سبب ہے:
سیدنا علیؓ (بن ابی طالب) سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ
’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں درازی ہو‘ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور مرنے کے بعد لوگوں میں برائیوں کا چرچا نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی (رشتوں سے ملا)کرے۔‘‘ (حاکم‘ بزار)
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ
’’جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی نصیب ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس کا اچھا تذکرہ ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
صلہ رحمی کرنا اللہ کے پاس سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے:
قبیلۂ خثعم کے ایک شخص سے مروی ہے کہ میں نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ اپنے بعض صحابہ] کے ساتھ تھے‘ میں نے کہا کہ آپ کا یہ کہنا ہے کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں؟ آپؐ نے جواب دیا کہ ہاں‘ میں نے کہا‘ اے اللہ کے رسول! اللہ کو کون سے عمل سب سے زیادہ پسند ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’اللہ پر ایمان لانا۔‘‘ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! پھر کون سا کام؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’پھر صلہ رحمی کرنا۔‘‘ اس شخص نے کہا کہ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! سارے اعمال میں کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔‘‘ اس نے کہا کہ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! پھر کون سا عمل؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’قطعی رحمی کرنا۔رشتہ داروں سے علیحدگی‘‘ (مسند ابی یعلیٰ)
صلہ رحمی کرنا جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات کا سبب ہے:
سیدنا ابوایوبؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ایک سفر میں تھے‘ اس نے آپؐ کے اونٹ کی رسی یا نکیل تھام لی‘ پھر کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ! یا اس نے کہا کہ اے محمدؐ! آپ مجھے وہ کام بتائیں کہ جن کے کرنے سے میں جنت کے قریب اور جہنم سے دور ہو جاؤں۔ تو نبی کریمؐ رک گئے‘ پھر آپؐ نے صحابہ کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو‘ اس کے ساتھ شرک مت کرو‘ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو‘ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اونٹنی کو چھوڑ دے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو‘ جب وہ واپس ہوا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں نے اسے جس چیز کا حکم دیا ہے اگر وہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے تو وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔‘‘ (بخاری)
صلہ رحمی بدلہ کے طور پر نہیں:
بعض لوگ ایسے ہیں کہ اپنے ان رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں اور ان سے قطع رحمی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں‘ حقیقت میں یہ صلہ رحمی کرنا نہیں بلکہ بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ہے۔ یہ چیز رشتہ دار اور غیر رشتہ دار دونوں کے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ بدلہ دینا صرف رشتہ داروں کے ساتھ مختص نہیں۔ لیکن صلہ رحمی کرنے والا درحقیقت وہ ہے جو اپنے رشتہ داروں سے اللہ کی خاطر ملتا جلتا ہے خواہ وہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کریں یا قطع رحمی۔ اسی لیے اللہ کے نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرنے والا‘ صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس کے ساتھ قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
قطع رحمی کرنے والے کی سزا:
قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا‘ سیدنا جبیر بن مطعمؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریمؐ کو فرماتے سنا کہ کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ سیدنا سفیانؓ نے کہا کہ یعنی رشتوں کو کاٹنے والا۔ (بخاری ومسلم)
سیدنا ابوموسیٰؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے‘ ہمیشہ شراب پینے والا‘ قطع رحمی کرنے والا اور جادو کی تصدیق کرنے والا۔‘‘ (مسند احمد‘ ابن حبان)
قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا:
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا‘ آپؐ فرما رہے تھے کہ
’’بنی آدم کے اعمال ہر جمعرات (جمعہ کی رات) کو پیش کیے جاتے ہیں مگر قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔‘‘ (احمد)
بیوی کو صلہ رحمی سے منع کرنا:
شیخ صالح الفوزان سے سوال کیا گیا کہ کیا شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کو صلہ رحمی کرنے سے منع کر دے‘ خاص طور پر والدہ اور والد کے ساتھ۔
فضیلۃ الشیخ نے جواب دیا کہ صلہ رحمی کرنا واجب ہے اور شوہر کو یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اس سے منع کرے۔ اس لیے کہ قطع رحمی کبیرہ گناہ ہے اور بیوی کو اس معاملہ میں شوہر کی بات نہیں ماننی چاہیے کیونکہ جب خالق کی نافرمانی ہو رہی ہو تو مخلوق کی اطاعت کرنا جائز نہیں۔ بلکہ بیوی کو چاہیے کہ وہ خاص اپنے مال سے صلہ رحمی کرے‘ مراسلت کرے اور ملاقات کرے‘ الا یہ کہ یہ ملاقات شوہر کے حق میں بگاڑ کا باعث ہو اور شوہر کو یہ خدشہ ہو کہ بیوی کے قرابت دار اسے شوہر کے خلاف اکسائیں گے تو ایسی صورت میں شوہر کو اختیار ہے کہ وہ بیوی کو ان سے ملنے پر پابندی عائد کر دے‘ مگر اس صورت میں بھی بغیر ملے بیوی ان سے صلہ رحمی کر سکتی ہے کیونکہ اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہو گی۔ واللہ اعلم!

مزید :

ایڈیشن 1 -