23مارچ 1940ء قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا عظیم اجتماع سے خطاب اقتباس

23مارچ 1940ء قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا عظیم اجتماع سے خطاب اقتباس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خواتین و حضرات!
آج پندرہ ماہ کے بعد ہم اپنے اس اجلاس میں جمع ہوئے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا پچھلا اجلاس دسمبر 1938ء میں پٹنہ میں ہوا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک کئی تبدیلیاں اور واقعات ہو چکے ہیں۔ پہلے میں مختصراً یہ بتاؤں گا کہ 1938ء کے اجلاس پٹنہ کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کو کن مشکلات سے دو چار ہونا پڑا اور کیا کیا کام سر انجام دیئے۔ میں آپ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ میں نے ہر صوبے میں صوبائی مسلم لیگ قائم کر دی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں کے ہر ضمنی انتخاب میں ہمیں طاقتور اور زبردست حریفوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی ایک ضمنی انتخاب میں بھی ہمارے حریفوں کو مسلم لیگ کے امیدواروں کے خلاف کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ ایوان بالا کے گزشتہ انتخاب میں مسلم لیگ کو سو فیصد کامیابی حاصل ہوئی۔
آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ ہم نے پٹنہ کے اجلاس میں ایک’’ مجلس خواتین‘‘ قائم کی تھی عورتیں پردے میں اور گھر کی چار دیواری میں رہ کر بھی بہت کچھ کر سکتی ہیں’’ مجلس خواتین‘‘ اسی خیال سے قائم کی گئی تھی کہ انہیں مسلم لیگ کے کام میں شریک کیا جائے۔
خواتین و حضرات! حکومت برطانیہ اور پارلیمنٹ اور ان سے کہیں زیادہ انگریز قوم نے ہندوستان کے مستقبل اور آئین کے بارے میں بر سہا برس سے طے شدہ تصورات کے تحت پرورش پائی ہے۔ یہ تصورات پرمبنی ہیں ان تبدیلیوں پر جوان کے اپنے ملک میں واقع ہوتی رہی ہیں اور جن کے زیر اثر برطانوی آئین کی تشکیل ہوئی ہے جواب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور نظام کا بینہ کے ذریعہ وہاں چل رہا ہے۔ سیاست کی مختلف سطحوں پر جماعتی حکومت کا تصوران کا نصب العین بن چکا ہے۔ جماعتی حکومت کو وہ بہترین طرز حکومت سمجھتے ہیں۔ اپنے ہی لیے نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کے لئے۔ اس یک طرفہ مگر مضبوط پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا( جس سے انگریز قدرتی طور پر بہت متاثر ہوتا ہے) کہ انہوں نے وہ آئین نافذ کرنے کی شدید غلطی کی ہے جو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935 ء میں شامل ہے۔ ہندوستان کی ڈیڑھ سو سالہ وحدانی حکومت جو نتائج حاصل نہ کر سکی، وہ مرکزی وفاقی حکومت کے نفاذ سے حاصل نہیں ہو سکتے ، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس طریقے سے بنائی گئی حکومت کا کوئی فرمان یا حکم براعظم میں پھیلی ہوئی مختلف قوموں سے ان کی رضا مندی وفاداری اور اطاعات حاصل کر سکتا ہے، اگر مسلح افواج اس کی پشت پناہی پر ہوں تو بات دوسری ہے۔
ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بد یہی طور پر بین الاقوامی ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے، جب تک اس بنیادی اور اساسی حقیقت کو پیش نظر نہ رکھا جائے، جو دستور بھی بنایا جائے گا، وہ چل نہیں سکے گا اور نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ انگریزوں اور ہندوؤں کے لئے امن اور خوشحالی لائے تو ہم سب کے لئے اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہندوستان کو خود مختار قومی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ قومی ریاستیں باہم مخاصمت رکھیں، اس کے برعکس ملک کی حکومت میں ایک دوسرے پر سیاسی برتری جمانے، ایک دوسرے کے معاشرتی نظام پر چھا جانے کی قدرتی خواہش کوشش اور موجودہ باہمی مخاصمت ختم ہو جائے گی، ان قومی ریاستوں میں مشترک بین الاقوامی ماضی کی وجہ سے قدرتی طور پر خیر سگالی کے جذبات پیدا ہوں گے، وہ اچھے پڑوسیوں کی طرح مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں گے۔ دوستانہ معاہدوں سے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق و مفاہمت کا بہتر اور موثر تحفظ ہو سکے گا، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو دھرم کی جدا گانی نوعیت و ماہیت کو سمجھنے سے قاصر کیوں رہتے ہیں اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ در حقیقت مختلف اور جداگانہ معاشرتی نظام محض ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان مل کر کبھی ایک مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے۔ متحدہ ہندوستانی قوم کا غلط تصور حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے یہی ہماری بہت سی مشکلات اور مسائل کی اصل جڑ ہے اور اگر ہم نے بر وقت اپنے تصورات میں اصلاح نہ کی تو ہندوستان تباہ ہو جائے گا۔ ہندو اور مسلمان مختلف مذہبوں، فلسفوں،معاشرتی نظاموں اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں، یہ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں بلاشبہ یہ بالکل مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں جن کی بنیاد ایسے افکار و تصورات پر ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں بلکہ اکثر متصادم رہتے ہیں ان کا نظریہ حیات مختلف طرزحیات مختلف۔
تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ قومی ضروریات کے باعث ملک تقسیم ہوا مثلاً برطانیہ اور آئیر لینڈ‘ چیکو سلاواکیہ اور پولینڈ۔ تاریخ نے ہمیں براعظم ہندوستان سے کہیں چھوٹے ایسے جغرافیائی خطے بھی دکھائے ہیں جو اگرچہ ایک ہی ملک کہلاتے تھے مگر انہیں اتنی ہی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا جتنی قومیں وہاں آباد تھیں مثلاً جزیرہ نمائے بلقان میں سات آٹھ خود مختار ریاستیں ہیں اسی طرح جزیرہ نما آئیریا سپین اور پرتگال میں منقسم ہے جب کہ ہمارے ہاں ایک قوم اور ایک ہندوستان کے نام پر جوفی الحقیقت وجود نہیں رکھتے ایک مرکزی حکومت کے خط مستقیم پر چلنے کی راہ تلاش کی جاتی ہے۔ مختلف ادوار میں ہندوستان، ہندو ستان اور مسلم ہندوستان کی صورت میں ہمیشہ منقسم رہا ہے ہندوستان کے موجودہ مصنوعی اتحاد کا آغاز انگریزوں کے تسلط سے ہوا تھا اور برقرار ہے تو انگریز کی سنگینیوں کے باعث لیکن جب انگریزوں کا اقتدار ختم ہو جائے گا جیسا کہ حکومت کے تازہ اعلان سے ظاہر ہوتا ہے تو اتحاد کی یہ عمارت فوراً منہدم ہو جائے گی اور اتنی زبردست تباہی آئے گی کہ اس کی مثال مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں کہیں نہیں ملتی یقیناً برطانیہ اپنی ڈیڑھ سو سالہ حکمرانی کے بعد ہندوستان کو یہ تباہی میراث کے طور پر نہیں دے گا اور نہ ہندو اور مسلمان ایسی یقینی تباہی کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہوں گے، مسلم ہندوستان کسی ایسے دستور کو قبول نہیں کر سکتا جس کا لازمی نتیجہ ہندو اکثریت کی حکومت کی صورت میں نکلے۔ ایک ایسے جمہوری نظام کا مطلب صرف ہندو راج، ہی ہو سکتا ہے جو اقلیتوں پر زبردستی ٹھونس دیا گیا ہو اور جس کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کو زبردستی اکٹھا کیاگیا ہو اس قسم کی جمہوریت جو کانگریس ہائی کمان کو دل و جان سے عزیز ہے اس چیز کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دے گی جو اسلام میں انتہائی عزیز ہے۔
لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن، اپنا علاقہ اور اپنی ملکیت ہونی چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ یاد رہے کہ دھمکیوں اور تشدد آمیز نعروں سے ہمیں ہمارے مقصد اور نصب العین سے منحرف نہیں کیا جا سکتا ہمیں ہر قسم کی مشکلات، ہر طرح کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
***

مزید :

ایڈیشن 1 -