حضرت شاہ حسینؒ المعروف مادھولال حسین

حضرت شاہ حسینؒ المعروف مادھولال حسین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

945ھ میں شیخ عثمان کے گھر پیدا ہونے والے بچے کا نام حسین رکھا گیا کون جانتا تھا کہ یہ بچہ علم ومعرفت کا زینہ چڑھتے ہوئے شاعری کے آسمان کا درخشندہ ستارہ بنے گا۔
نہ صرف اپنے دامن میں علم وادب کے موتی چنے گا بلکہ اسلام کے زریں اصولوں کو پائندہ بنانے کے لئے اس کی تبلیغ انوکھے انداز میں عوام کے دل ودماغ میں ذہن نشین کروانے کا نیا انداز اپنائے گا۔
کم سنی میں ہی قرآن پاک کی معتبر تعلیم سے آگاہی کے لئے والد ماجد نے شیخ ابوبکر کے پاس مسجد میں بٹھا دیا۔ حسین نے ناظرہ کے ساتھ ساتھ حفظ بھی کرنا شروع کردیا۔ ایک دن حضرت بہلولؒ بھی تشریف لائے ہوئے تھے آپ کا نام پوچھا اور وضو کے لئے پانی کا لوٹا منگوایا۔ یہ مسجد مکتب دروازہ ٹکسالی لاہور متصل کنارہ دریائے راوی تھا۔
حضرت شیخ بہلول ؒ نے وضو فرماکر دعائے خیر دی کہ یا الٰہی اس کو اپنا سچا عاشق اور فقیر عارف باللہ کردے۔
اسی اثناء4 میں ماہ رمضان المبارک بھی آگیا۔ حضرت شیخ نے حسین کو تراویح میں قرآن مجید پڑھانے کا حکم دیا۔ چھ سپارے سنانے کے بعد خاموشی اختیار کی کہ مزید نہیں پڑھ سکتا حضرت بہلول نے فرمایا۔ وضو کر اور دریا کی جانب چلا جا، ایک سبز پوش بزرگ ملیں گے جب کوزہ بھرچکے گا تو ان کی بات سننا اور حکم بجا لانا۔
حسین جب پانی بھرچکے تو سبز پوش نورانی صورت شخص حاضر ہوا اور فرمایا میرے ہاتھ پرکوزہ کا پانی ڈال، حسین نے کوزہ سے ان کے ہاتھ پر قدرے پانی ڈالا، اس میں سے بزرگ نے حسین کے منہ میں پانی ڈال دیا اور غائب ہوگئے۔ واپسی پر حضرت بہلول نے راز کو راز رکھنے کا حکم دیا اور تراویح میں قرآن پاک پڑھنے کو کہا۔ حسین نے سارا قرآن سنا دیا۔ اب حسین حسین نہ رہے بلکہ حضرت حسین بن گئے۔
انہیں شیخ نے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضری کا حکم دیا اور رخصت ہوگئے۔
اب حضرت حسین نے دریائے راوی کے کنارے اپنا ڈیرہ جما لیا۔ رات بھر ایک ٹانگ پر کھڑے رہتے اور تلاوت قرآن کرتے نہ تو موسم کی سختیاں ارادے کو متزلزل کرسکیں ، نہ نفس امارہ کو اجازت دی۔ نماز فجر واشراق ادا کرنے کے بعد حضرت داتاگنج بخش ؒ کے مزار پر حاضری دیتے۔
صاحب حقیقت الفقراء لکھتے ہیں کہ تفسیر مدارک کا مطالعہ کررہے تھے کہ اچانک تفسیر کنویں میں گرگئی ، آپؒ اور رقص کرنے لگے طلبہ کے اعتراض پر تفسیر کنویں سے نکالی تو خشک تھی اب آپ حال سے بے حال ہوگئے۔ کرامت کا چرچا ہوا تو ملامتیہ رنگ اپنا لیا۔ تاکہ لوگ براکہیں اور خود تمام وقت یاد الٰہی میں مشغول رہیں۔
بریاں بریاں وے کوکااسیں بریاں وے لوکا
بریاں کھول نہ ہووے لوکا
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ صدیوں سے من کو کسوٹی پر پرکھا گیا ہے۔
افلاطون نے ہمیشہ عقل کی بیساکھی کو استعمال کیا ہے۔ شاعری کے بارے میں اس کے نظریات محض غوروفکر کا نتیجہ ہیں۔ وہ اسی فن کو غیرجذباتی ہوکر دیکھتا ہے۔
رسکن کے مطابق شاعر اعلیٰ اخلاق وکردار کا مالک اور خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔
لوئی جانسن کہتا ہے کہ اعلیٰ وارفع ادب کا خالق وہ ادیب ہوتا ہے جس کے خیالات اعلیٰ ہوتے ہیں۔
کروچے نے کہا ہے فن ہمیشہ فنکار کے ذاتی اظہار کا نام ہے۔
اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ شاعر کا اسلوب بیاں اس کے اردگرد کے حالات ماحول جذبات شعوری ولاشعوری تحریک کا نتیجہ ہوتے ہیں جب وہ شعر کہتا ہے تو پس پردہ وہ تحریک ہوتی ہے جو اس کے دل ودماغ میں ہلچل مچادیتی ہے اور شعروں کی شکل میں اس کا اظہار کردیتا ہے۔
جب ہم پنجابی شعرا کی طرف آئیں تو یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بابا فریدؒ نے نہ مسائل تصوف بیان کئے اور نہ ہی صوفیانہ وارداتوں کو اپنی شاعری کا ذریعہ اظہار بنایا بلکہ ان کی شاعری اخلاقیات کا پر تو ہے:
روٹی میری کاٹھ دی لاون میری بکھ
جناں کھادی چوپڑی گہنے سہن کے دکھ
سلطان باہوؒ نے وقت کی لگام کو تھاما اور وحدانیت کا پرچار کیا۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیاہر رگے ہر جائی ہو
بابا بلھے شاہؒ اپنی جذباتی کیفیت وارفتگی کو سنبھال نہ پائے اور پکاراٹھے:
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
وارث شاہؒ نے پنجاب کا انسائیکلوپیڈیا پیش کیا ہے۔ ماحول ملکی حالات اور اپنے دل ودماغ کی عکاسی خوب کی۔ روح اور جسم کے تعلق کو مجازی روپ (ہیر رانجھے کے روپ ) میں دے کر حقیقت کے روپ سے پردہ اٹھایا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شکسپیئر کے کلام کو سمجھنے کے لئے شکسپیئربننا پڑتا ہے۔ اور اقبالؒ کے کلام کو سمجھنے کے لئے اقبال سا دماغ چاہئے۔ اسی طرح سے شاہ حسینؒ کے کلام کو سمجھنے کے لئے ان کی متانت سنجیدگی عجزو انکساری کی ضرورت ہے۔ شاہ حسین جیسا خوف خدا اور دل سوزی درکار ہے۔ ان کی حالت اس شخص جیسی ہے جسے کامرانی کم اور ناکامی زیادہ ملنے کا خدشہ ہو۔
اکبر کے زمانے میں دلے بھٹی کو پھانسی دی گئی شاہ حسین بھی موقع پر موجود تھے۔ منہ دوسری طرف کرلیا کہ انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل دیکھی نہیں جاتی۔ اس کے بعد صوفیانہ خیالات کا اظہار خوب کیا۔
ڈاکٹر ارجونتی رام کرشنا اور ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے کافیاں ’’گورمکھی‘‘ میں شائع کیں۔
شاہ حسین کی کسی بھی کافی میں شراب، مستی ، بھنگ ، ڈنڈا ، کونڈا، کا ذکر تک نہیں ہے۔ شاہ حسینؒ کا ملامتیہ رنگ دیکھ کر اور ان کا کلام پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ ان کا ہی کلام ہے۔
چرخہ زندگی کی علامت ہے اور چرخہ چلانے والا ہاتھ انسان کا ہے۔ سوت کاتنے والا ہاتھ ’’جولاہے ‘‘ کا ہے۔ یہ ’’جولاہا‘‘ رمزیہ ہے۔ استعارہ ہے اس بات میں کہ سوت کاتنے والا ہاتھ جولاہے کا ہے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی گزارنے والا (جولاہا) اگر انسان ہی بن جائے تو بڑی بات ہے انسانیت ہی تو معراج ہے۔ جیسے ایک جولاہا بڑی تگ ودو کے بعد کھیس بن کر تیار کرتا ہے۔ اسی طرح انسان ساری عمر اعمال جمع کرتا ہے۔ جیسے جولاہا کھیس اچھا بنتا ہے توپسند کیا جاتا ہے اسی طرح انسان اچھے اعمال کرے گا تو اس کا صلہ ضرور پائے گا۔ جوشخص ساری رات قرآن پاک کی تلاوت کرے جو ہر لمحہ رب حقیقی سے ڈرے جو خود کو رب العزت کی یاد سے غافل نہ کرسکے اور ملامتیہ رنگ اپنائے۔ کیا اس کو چھوٹی ذات کہنے کو عقل تسلیم کرتی ہے ؟اچھا کلام صدقہ جاریہ ہے جو شاہ حسینؒ نے ادا کردیا ہے، اور یہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
ایک بار ایک صحابی نے آنحضور ؒ کو یا سید نا کہا۔ آپؒ نے منع فرمایا جب اس نے کہا آپ قوم مسلمان کے سردار ہیں اس لئے سید نا کہا ہے تو آپ خاموش ہوگئے۔
آخری خطبہ میں واضح طورپر فرمایا :
’’تم سب آدم کی اولاد ہو، رنگ نسل کی کوئی حیثیت نہیں۔ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں پھر قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے :
’’ہدایت ہے ان کے لئے جو متقی ہیں‘‘
مسلمان کی ذات ایک ہے صرف مسلمان۔ جب رب کی نیاز میں سجدہ کردیا تو پھر اور سجدوں کی کیا ضرورت ؟ جب شاہ حسین رب کی محبت میں ڈوب گئے تو باقی رہ ہی کیا گیا ؟
جو شخص ساری رات عبادت میں گزاردے ایک لمحہ بھی اپنے رب حقیقی سے غافل نہ رہے صرف اس لئے ملامتیہ رنگ اپنائے کہ اس کی عبادت میں خداخوفی میں ریا فخرو غرور اور دکھاوا شامل نہ ہو۔ تو اس کو چھوٹی ذات کا نام دے کر اس کی عظمت کے چاند کو داغدار کرنا اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔ ان کی بیشتر کافیوں کی بنیاد وحدت الوجود پر ہے:
اندر توں باہر توں روم روم وچ توں
توں ہی تانا توں ہی بانا سب کچھ توں
کہے حسین فقیر نمانا میں ناہیں سب توں
فقیر نظر : فقر کی واضح کرتا ہے نمانا اس کا وصف ہے میں ناہیں سب توں اپنی مکمل نفی کرتا ہے یہ فقر اور درویش کا طغرا ہے نہ کہ وحدت الوجود کا۔
’’اندر توں باہر توں روم روم وچ توں‘‘ ذکر الٰہی کا جسم میں رچ بس جانا ہے کہ وحدت الوجود کا ، یہ اعجاز ہے کہ جسم کی ہر رگ ذکر الٰہی کا سازبن جاتی ہے۔
قرآن مجید میں ہے۔ ھوالاول ھوالاخر ہوالظاہر ہوالباطن وھوبکل شئی علیم صوفیا کا معمول ہے ہرچند کہ اس سے وحدت الوجود پر دلیل سمجھا گیا ہے مگر جسم کے اندر باہر ہرجگہ ذکر جاری ہونا اور غلبہ محبت سے خدا کی ذات ہمہ جہت نظر آنا بھی اس کی شرح ہے۔ شاہ حسین کی وفات
۱۔بقول حقیقت الفقراء4 1056ھ
2۔ بقول مفتاح العارفین ،1013ھ 1604ء4 مفتاح قلمی 9229
3۔بقول عبدالقادر بدایونی 999ھ ؒ 1590ء4
نجات الرشید کی تصنیف 999ھ کے دوران مجھے معلوم ہوا (لاہور میں ) کہ شاہ حسین نغمہ سے بے خود ہوکر مکان کی چھت سے گرے اور فوت ہوگئے (نجات الرشید 320)
شاہ حسین کا مزار : بقول حقیقت الفقراء4 پہلے شاہدرہ میں بنایا گیا مگر جب دریائے راوی میں رخ بدلا تو آپ کا تابوت وہاں سے نکلوا کر موجودہ باغبانپورہ میں لاہور میں دفن کیا گیا۔
تصانیف پنجابی کافیاں۔ نظم
فارسی نثر۔ مسائل تصوف پر آسان فہم مکمل متن
مجلہ معارف اعظم گڑھ اگست 1970ء4 اور رسالہ صحیفہ لاہور جولائی 1972ء4 میں شائع ہوچکا ہے۔ ***

مزید :

ایڈیشن 1 -