تعلیماتِ اسلام میں قیام امن عامہ
آج کی دُنیا ایک طرف توترقی و ایجادات اور سائنس و ٹکنالوجی میں تیزی سے آگے ہی آگے بڑھتی چلے جارہی ہے تو دوسری طرف اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ انسانیت خوف وہراس، جبر واکراہ،بھوک و افلاس اور ظلم وتشدد ،دہشت و وحشت و بربریت کے گہرے جہنم میں گرتی جارہی ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دُنیا کے چکا چوند دامن پر بدامنی اور ہرنوع کی عصبیت کا بد نما داغ لئے ہوئے ایساسوال انسانیت کا منہ چڑا رہا ہے جس کا جواب تاہنوزتشنہ ہے۔
خرابی اور بدامنی کا پودا خود نہیں اُگتا بلکہ یہ بعض انسانوں کی کوتاہ اندیشانہ پالیسیوں اور خود غرضانہ مفادات کے حصول کی وجہ سے وجود میں آتی ہے اور پھر نہ مانوں کی ضد او ر متواتر رٹ پر اس کی آبیاری ہوتی رہتی ہے اور یوں قانون قدرت اور اصول فطرت کہ ’’جیسا بوئے گے ویسا ہی کاٹو گے‘‘کے مطابق یہ دنیا غارت گر امن بن کر رہ جاتی ہے۔
آج ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ بدامنی کی موجودہ عالمی صورت حال کا حل نہ تو امریکی ورلڈ آرڈرمیں مضمر ہے ۔نہ آج کا یورپی یونین کا اتحادیا کوئی اور علاقائی اتحاد،اور نہ ہی اقوام متحدہ کے مختلف فورم وغیرہ کوئی ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکے ہیں جس سے کہ دنیا میں عدل وانصاف کابول بالا ہوسکتا ہو۔امن وانصاف کے حصول میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ فساد کے عوامل کو برقرار رکھنے یا ان کو برابر ترقی دیتے رہنے میں ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کی دُنیاکی بد امنی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
میرے خیال میں اس کی بنیادی وجوہ حسبِ ذیل ہیں:
(1) معاشی استحکام کی خواہش اور اس کی محرومیاں، معاشی استحصال، غربت 2۔انصاف کا فقدان3۔بے روزگاری اور مادہ پرستی 4۔طاقت و قوت کانعرہ5۔مذہبی برتری اور6 ۔لینے اور چھیننے کا نظریہ کسی بھی عہد، وقت ، خطہ اور علاقے کی تاریخ کی ورق گردانی سے یہ بات پایہ صدق کو پہنچتی ہے کہ انہی عوامل کی بدولت امن عامہ تہہ و بالا ہوا۔ خواہ ان کے لئے کوئی بھی خوش رنگ ونظر نام تراش لئے جائیں۔تاریخ کا طالب علم آگاہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عالم انسان کوان مختصر وقفوں میں سکون وطمانیت نصیب رہا جن میں انسان پیغمبرانِ خدا کی راہ پر چلے۔یہ کوئی ایسا فلسفہ یا منطق نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے،بلکہ تجزیہ اورمشاہدہ اس بات کاسب سے بڑا وکیل ہے کہ آسمانی ہدایتوں اور ربانی تعلیمات کے علاوہ کوئی اور چیز ایسی نہیں جو انسانوں کو صحیح منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہو اور ان تعلیمات پرگامزن رہنے ہی میں انسانیت کو امن وسکون میسر آسکتا ہے۔
اس لئے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی عالمِ انسان کے لئے امن وسکون کی عمارت کو بلا تفریق نسل ومذہب انہی ابدی ،الہامی اور یونیورسل حقوق و فرائض اورمطالبات و حقائق کی بنیاد پر اُٹھانے میں مضمر ہے جن کوتمام بڑے بڑے الہامی مذاہب نے تسلیم کیا ہے،جس میں عدل و انصاف، سچ اور حق اصول اولین قرار پاتے ہیں۔
ایسی عمارت کی تشکیل کے لئے تمام بڑے بڑے مذاہب کے مذہبی ماہرین علماء اور ریسرچ اسکالرز کو عالمی مذاہب کی مشترکہ اقدار کے بل بوتے پر ،آج کی مادی دنیاکو اس سے پہلے ذکر ہونے والے چار بنیادی اسباب سے دُور رکھنے کے لئے ،معاشرتی اور سماجی سطح پرایسے پریشر گروپ تشکیل دینے کی ضرورت کی طرف متوجہ ہونا چاہئے، جن کے توسط سے موجودہ دُنیا کو حقیقی معنوں میں،برابری کی بنیاد پر عدل و انصاف، معاشی خوشحالی اورامن وسکون کی نعمت حاصل ہو سکے۔عالم گیر بے چینی کا خاتمہ ہو سکے ،انفرادی امن و سکون ،گھریلو امن و سلامتی ،معاشرتی امن ، معاشی واقتصادی امن اورسیاسی امن حاصل ہو سکے۔ اس طرح عام لوگوں میں باطنی و ذہنی انقلاب آئے گا۔عظمت انسان کا غلغلہ بلند ہو گا ۔ مساوات انسانی سے انسانیت کاچہرہ کھِل اُٹھے گا۔
بد قسمتی سے اس وقت عالمی دہشت گردی نے دُنیا سے سکون چھین لیا ہے اورا س سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ اسلام کو دہشت گردی، فرقہ واریت سے منسوب کیا جاتا ہے اور دُنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی فتنہ و فساد برپا ہو یا دہشت گردی ہو اسلام اور مسلمانوں کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام حقیقی معنوں میں امن عالم کا پرچار کرتا ہے۔ غیراسلامی مذاہب سے برابر ی کے سلوک کا عملی داعی ہے اسلام کے پُر امن بقائے باہمی کے اصول کی تاریخ میں بے مثال مثالیں ملتی ہیں، جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے ۔ نبی اکرمﷺ کا آخری خطبہ ،عالم انسانیت کی فلاح کا عالمی منشور ہے۔ مدینہ منورہ میں کیا گیا معاہدہ ، میثاق ِ مدینہ اور نجران کے عیسائیوں سے کیا گیا معاہدہ اس کا عملی ثبوت ہیں کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو انسانیت کے بہتری کے لئے باہمی طور پر مل جل کر کام کرنا چاہئے۔ اگر مشترکہ اقدار پر رہ کر بہتری کی طرف چلا جائے تو اس کی تہہ سے خیر ، نیکی اور بہتری کا پیدا ہونا یقینی امر ہو گا۔اس سے انسانیت کا بھلا ہو گا۔ مذاہب کا دعویٰ اور بنیاد چونکہ خیر ہی کے پھیلانے کا ہوتا ہے تو اس کی راہ میں کوئی ایسی دیوار حائل نہیں ہونا چاہئے جو امن و سکون اور نیکی و فلاح کے خلاف ہو۔
مذاہب عالم کو آج کے دور میں 1 ۔بین المذاہب یگانگت، مذہبی رواداری اور عقیدہ کی آزادی کی طرف دھیان دینا چاہئے، 2۔پُرا من بقائے باہمی ، ہم آھنگی اور مذہبی اعتدال پسندی کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی اور حکمت عملی اپنانی چاہئے 3۔رواداری، انسان دوستی اور احترام انسانیت کے لئے کام کرنا چاہئے4۔اقلیتوں کا تحفظ کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔
اگر آج کے دور کے تمام اہم مذاہب اپنے ماننے والوں کو ان امور کی طرف متوجہ ہونے اور ان پر کاربند رہنے میں کامیاب ہو گئے تو عین ممکن ہوگا کہ موجودہ دور میں انسانیت کا قتل عام بند ہو جائے۔