۔۔۔امیدِ بہار رکھ خواتینِ وطن سے چند باتیں

۔۔۔امیدِ بہار رکھ خواتینِ وطن سے چند باتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں حالیہ مردم شماری سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملکی آبادی کا 48.67 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ مطلب یہ کہ وطنِ عزیز کی تقریباً 50فیصد قوت کا انحصار خواتین پر ہے۔ عورتیں اس ملک کی خاموش اکثریت ہیں۔ بے شک وہ بڑے اہم اور نام والے کام بھی کرتی ہیں لیکن ان کے کاموں کی تشہیر اس طرح نہیں ہوتی جس طرح کہ تشہیر کا حق ہے۔ اس ملک کے قیام سے لے کر اب تک خواتین نے ہر شعبے میں ہاتھ بٹایا اور قربانیاں دی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اپنے وجود اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس بڑھتا چلا آیا ہے۔ گھر گرہستی کے ساتھ ساتھ اب وہ تعلیم اور طب میں ناموری پانے کے علاوہ سربفلک پہاڑوں کی چوٹیاں سرکررہی ہیں، فضاؤں سے محو کلام ہیں، زمین پر بھاری بوٹوں سے دھمک پیدا کررہی ہیں اور سمندر کے نیچے لہروں کے ترنم سے آشنا ہورہی ہیں۔
ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک میں نے ترقئ نسواں کے تقریباً سبھی مدارج دیکھے ہیں۔ کالج میں پڑھائی اور کھیل دونوں سے شغف تھا۔ اس لئے تحقیق، محنت اور سپورٹس مین سپرٹ گھٹی میں پڑی تھی۔ اسی طرح سماجی کاموں کا شوق تھا اور زندگی کی ڈور کا سرا پانے کا تجسس۔ اس لئے صحافت کا پیشہ اختیار کیا اور معاشرتی بہبود کا بیڑہ اٹھایا اورسچ تو یہ ہے کہ اس دشت نوردی میں میں نے بے حد قیمتی تجربے حاصل کئے۔
28 برسوں پر پھیلے اپنے صحافتی مشاہدوں اور تجربات کی بنا پر میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ہماری خواتین خواہ ان کا تعلق پسماندہ جگہوں سے ہو یا ترقی یافتہ علاقوں سے، ان کے اندر برداشت، ہمت و حوصلہ، صبر اور اپنے ماحول میں بہتری لانے کی امنگ بدرجہ اُتم موجود ہے۔ ضرورت ہے توبس اس امر کی کہ انہیں مناسب و موزوں اور بروقت رہنمائی مہیاکی جائے۔
حقیقی اور پُر خلوص رہنمائی کی ہمارے ملک میں اس وقت سخت ضرورت ہے۔ یہی ایک ضرورت ہے کہ جس کی کمی سے ہمارا ملک مسائل اور انتشار کا شکار ہے۔ بہر حال مقامِ شکر ہے کہ خواتین کی وہ تنظیمیں اور ادارے جو سماجی بہبود و ترقی کے لئے وجود میں آئے اور اپنے قیام سے لے کر اب تک بہتری کے لئے کوشاں ہیں، قابلِ ستائش کام کررہے ہیں۔ مثبت فرق پیدا کرنے کی غرض سے وہ دن رات محنت کررہے اور کامیابیاں پا رہے ہیں۔اُن نوجوان ہمت ور لڑکیوں کے لئے میرے دل سے دعائیں اُٹھتی ہیں جو مشنری جذبوں کے تحت تعلیم کے میدان میں اپنی توانائیاں کھپا رہی ہیں اور دور دراز علاقوں میں اُن بیماریوں کے خلاف پیش پیش ہیں جن کے باعث بچوں کو جسمانی معذوری کا خدشہ ہوتا ہے۔ وہ سفر کی صعوبتوں کی پرواہ کرتی ہیں نہ اپنی جان کی۔ان کے ٹھوس ارادوں کے سامنے واقع رکاوٹیں موم کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ ابھی دو روز ہوئے کہ پولیو کے حوالے سے مجھے ایک عالمی تنظیم کی آگہی مہم کے سیمینار میں شرکت کا موقع ملا اور ملکی اور غیر ملکی خواتین کی اس تگ و دو میں پیش رفت کے بارے میں جانکاری حاصل ہوئی جو پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے ضمن میں خلوصِ نیت اور جہدِ مسلسل سے مصروفِ عمل ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ پاکستان میں بین الاقوامی روٹری کلب کی گورنر محترمہ فائزہ قمر اپنی دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ پولیو کے مرض کے خاتمے کے لئے سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ ہماری خواتین قومی امور کے بارے میں مضطرب اور متحرک ہیں۔ وطن کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ قومی بہتری کے حوالے سے مضطرب اور متحرک ہو جائے تو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟میری خواہش ہے کہ ہمارے ملک کی سبھی خواتین ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوں۔ خواتین اس ملک کا اعتماد اور قوت ہیں،اس ملک کا قیمتی قومی سرمایہ ہیں۔ کسی بھی قوم کی پڑھی لکھی خواتین اس قوم کی تابندگی اور بلند مرتبے کی ضامن ہیں۔ دانا خواتین کے ہاتھ میں ریاست کی باگ ڈور ہو تو ملکی فلاح و ترقی لازمی امر بن جاتی ہے۔ جرمنی کی خاتون چانسلر انجیلا مرکل نے وطن کے لئے اپنی توانائیوں کو اس دیانت داری کے ساتھ کھپایا کہ قوم نے انہیں چوتھی بار اپنا حکمران منتخب کیا ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ میں سب سے کم عمر خاتون وزیر اعظم کے حالیہ انتخاب نے ثابت کیا کہ بڑے سیاسی منصب پر خاتون بھی فائز ہو سکتی ہے اگر اس شخصیت پر اعتماد ہو اور ذہانت، لیاقت اور دیانت اس کے روشن اوصاف ہوں۔
میں نے بارہا اپنی ہم وطن خواتین پر بھروسے کا اظہار کیا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ ہماری خواتین میں بے شمار خفتہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ سیاسی افراتفری نے ان میں اگرچہ وساوس پیدا کردیئے ہیں تاہم تھوڑی سی توجہ، ذراسی رہنمائی اور معمولی سی ہمت افزائی سے یہ ایسے معرکے سرانجام دے سکتی ہیں کہ جن سے ہمارے ملک کا نام روشن اور ہماری قوم کا سر فخر سے بلند تر ہو گا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -