پاکستان میں تعلیمی مسائل اور ان کا حل
ہماری آزادی کو68سال گزر چکے ہیں مگر آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکا کہ ہمارے لئے کیا اچھا اور کیا بُرا ہے۔ کبھی ہم پکے مسلمان بننے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی مغربی طرز معاشرت کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں اور یہ حال ہمارا صرف رہنے سہنے کے دوران نہیں ہے، بلکہ ہماری تعلیم کا شعبہ بھی ان سے بچ نہیں سکا۔ ہر سال بدلتے نصاب نے ہمارے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے. ہم تو آج تک یہ بھی طے نہیں کر پائے کہ ہمارے نصاب کی زبان اُردو ہونی چاہئے یا انگریزی۔ مُلک کا حال یہ ہے کہ قومی زبان اُردو ہونے کے باوجود ہمارے ہاں تعلیمی نظام انگریزی ہی پسند کیا جاتا ہے۔ آخر ہمیں ایسی کون سا احساس کمتری ہے، جو ہمیں اپنی قومی زبان سے جدا کر رہا ہے۔ بدلتے نصاب نے بچوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، جو ناصرف نیا ہوتا ہے، بلکہ ہائر ایجوکیشن کے برابر بھی کہ جسے نہ بچوں کا کچا ذہن قبول کرتا ہے اور نہ ہی وہ اس نصاب کے ساتھ سمجھوتہ کر پاتے ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کو سنبھالنے کا کام وزارتِ تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں، جبکہ فیڈرل گورنمنٹ کا کام تعلیم کے حوالے سے ان دونوں حکومتوں کی مدد اور ریسرچ کی فراہمی کا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم بنیادی طور پرپانچ ادوار پر مشتمل ہے:
پرائمری ایک سے پانچ تک
مڈل چھ سے آٹھ تک
سیکنڈری نو سے دس تک
انٹرمیڈیٹ گیارہ سے بارہ تک
ہائیر ایجوکیشن تیرہ سے سولہ اور اس سے اوپر تک
اور تمام ادوار میں طلباء شدید مشکلات محسوس کرتے ہیں۔ حکومت کا یہ اقدام نہایت تحسین آمیز ہے، جس میں انہوں نے پرائمری سطح تک تعلیم مفت فراہم کرنے کے لئے کافی اقدام کئے ہیں، جن کے تحت حکومت کتابوں کا حصول مفت کرنے کے ساتھ ساتھ بغیر فیس کے سکول کی پرائمری سطح تک تعلیم فراہم کی جا رہی ہے، لیکن یہ فراہمی شہروں کی حد تک تو نظر آ رہی ہے، مگر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں یہ بہتری کچھ خاص سود مند ثابت نہیں ہو سکی۔ نصاب کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے کچھ علاقوں میں آج بھی لڑکی اور لڑکے کی تعلیم میں فرق روا رکھا جاتا ہے اور لڑکے کی نسبت لڑکی کی تعلیمی شرح کئی حد تک کم ہے اور اس کے لئے حکومت کسی بھی طرح ایک کوئی شراط عائد نہیں کر پا رہی۔ یہی صورت حال بلوچستان اور اس کے نواح میں ایک سنگین صورت حال پیدا کر چکی ہے۔ اس کے تحت خواتین کے سکولوں کو طالبان کے ڈراوے پر بند کیا جا رہا ہے اور حکومت اس سلسلے میں بے بس نظر آتی ہے۔ کیا حکومت کا تعلق صرف امداد فراہم کرنے کی حد تک ہے۔ اسے لاگو کرنے کے بارے میں حکومت کوئی بھی کڑی پابندیاں عائد کیوں نہیں کر پا رہی اور دوسری طرف اگر ہم تعلیمی درس گاہوں کا حال دیکھیں تو یہ درس گاہیں افسوس کا مقام بن کر رہ گئی ہیں۔ سٹوڈنٹ پالیٹکس نے ان درس گاہوں کو صرف سیاست کا اڈہ بنا دیا ہے جہاں نہ اساتذہ کی عزت کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں تعلیم کی فراہمی کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایک طرف تو ہمارا تعلیمی معیار نہایت خراب ہے۔ دوسری طرف قابل اساتذ کی بے حد کمی ہے جس طرح کا معیار تعلیم طلباء کو فراہم کیا جا رہا ہے اس سے جو جنریشن بنے گی اس کے معیار تعلیم کا اندازہ آپ کر ہی سکتے ہیں کہ آنے والی یہ جنریشن خود کس حد تک ناقص نظام نافذ کرے گی۔
اس کے علاوہ چونکہ ہمارے مُلک میں تعلیم پانچ درجوں میں فراہم کی جا رہی ہے اس لئے وہ طلباء جو فیسیں ادا نہیں کر پاتے ان کے لئے تو حکومتی سکولوں کے علاوہ کوئی اور انتخاب باقی نہیں رہتا جو کبھی نصاب اُردو میں کر دیتے ہیں اور کبھی انگریزی میں، جبکہ وہ طلباء جن کا تعلق امیر خاندانوں سے ہوتا ہے وہ ہائی انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھنا اپنا حق سمجھتے ہیں جس سے ایسے سکولوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور دوسرے بچوں کے احساس کمتری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کا حل یہ ہے کہ حکومت ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی بنائے، جس کے تحت وہ مُلک کے معیار تعلیم کے نظام کو بہتر بنا سکے۔ اس ذیل میں ہم چند سفارشات پیش کر رہے ہیں:
*۔۔۔ تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ماحول کو بہتر بنایا جائے اور ناصرف لڑکوں، بلکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی یہی شرط نافذ کی جائے۔ اس کے علاوہ گاؤں اور وہ علاقے جہاں معیار تعلیم نہایت ناقص ہے وہاں ان قابل اساتذہ کو بھیجا جائے جو مُلک و قوم کے کام آنا چاہتے ہوں اور وقتاً فوقتاً ان کے کام کی نگرانی بھی کی جائے۔
*۔۔۔ معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے بھی گائیڈ لائن فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنے علم کو اور بہتر بنا سکیں۔ ان کے لئے تدریسی سرٹیفکیٹ بنائے جائیں تاکہ ان کے معیار تعلیم کو جانچا جا سکے۔
*۔۔۔ بار بار تعلیمی نصاب کو بدلنے کے بجائے ایک نظام کو کم از کم پانچ سال کے لئے بنایا جائے تاکہ اس میں بہتری آ سکے۔ اِسی طرح سارے نصاب کو انگلش اور پھر اُردو میں بدلنے کے بجائے لازمی مضامین کو اُردو میں اور باقی سب کو انگریزی میں کر دیا جائے اور اوپر نیچے تمام اداروں میں ایک جیسا نظام نافذ کر دیا جائے تاکہ والدین اور بچے اونچے اور مہنگے اداروں میں احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو سکیں۔
*۔۔۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے قیام سے بھی نصاب میں مدد لی جائے تاکہ طلباء ایسی چیزوں کے غلط استعمال کے بجائے ان کا مثبت استعمال سیکھ سکیں۔ اس کے علاوہ معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے اور وہ نظام نافذ کیا جائے جو آسان اور زیادہ فائدہ مند ہو۔ Manual system کو الیکٹرانکس میں بدلا جائے تاکہ طلباء ان سے واقف ہوں اور بیرون ممالک جا کر کسی بھی قسم کی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔
*۔۔۔ تمام نصابی سرگرمیوں سے ہٹ کر روایتی مضامین کے ساتھ ان مضامین کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے جو زیادہ افادیت رکھتے ہوں۔ جیسے فیشن ڈیزائنگ اور انٹریئر ڈیکوریٹنگ وغیرہ۔ تاکہ طلباء اور طالبات میں ایسے مضامین کی دلچسپی بڑھے اور وہ دوسری تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہر میدان میں خود کو منوانے کا جوہر پا سکیں۔ پاکستان میں ان تمام سفارشات پر عمل کے ساتھ ساتھ ایسے مستقل لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو ایک یا دو دن کے بجائے ہمیشہ کے لئے نافذکیا جا سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ صوبائی حکومتوں پر دارو مدار رکھنے کے بجائے مرکزی سطح پر بھی تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کریں اور چاہے پرائمری سطح ہو یا ہائر ایجوکیشن کی سطح، طلباء میں علم کا رجحان بہتر بنایا جائے سٹوڈنٹ پالیٹکس کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے اور ان تمام گروپس کو کڑی سزا دی جائے جو اپنے ساتھ دوسرے طلباء کے مستقبل سے کھیلتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے تمام علاقے جہاں تعلیمی درس گاہوں کا قیام ختم یا بند ہو چکا ہے، انہیں دوبارہ کھولا جائے اور علاقے کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہو سکیں۔
***