پاک بھارت مذاکرات کے لئے بان کی مون کی پیشکش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اقوامِ متحدہ دونوں ملکوں میں اختلافات کو مذاکرات سے حل کرانے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی گئی تجاویز سے آگاہ ہیں بان کی مون نے کہا پاکستان متعدد دہشت گرد حملوں کا شکار ہوا اور اس کے عوام نے بھاری قیمت چکائی ہے جبکہ پاکستانی حکام اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔بان کی مون اس سے پہلے بھی پاک بھارت مذاکرات شروع کرانے کے لئے ایک سے زیادہ بار اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں۔ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں مذاکرات شروع ہونے کی جو امید اوفا (روس) کانفرنس کے موقع پر پیدا ہوئی تھی وہ بھی دم توڑ چکی اور سیکیورٹی مشیروں کی سطح کے دہلی میں ہونے والے مذاکرات بھارت نے آخری لمحے یہ کہہ کر ملتوی کر دیئے کہ ان کے دوران مسئلہ کشمیر پر بات نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے خارجہ سیکرٹریوں کے جو جامع مذاکرات 2014ء کے اگست میں ہونے والے تھے وہ بھی اس بنیاد پر ملتوی کر دیئے گئے تھے کہ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے کشمیری حریت رہنماؤں سے ملاقات کرلی تھی،اب کی بار کشمیری رہنماؤں کو استقبالیہ دعوت میں بلا لیا تھا، حالانکہ اس سے پہلے کشمیری رہنما متعدد بار ایسے استقبالیوں میں شریک ہو چکے ہیں اور جب بھی پاکستان سے کوئی مہمان نئی دہلی جاتا ہے ایسا استقبالیہ ترتیب دینا ایک روایت ہے اور کشمیری رہنماؤں کو عموماً ایسے استقبالیوں میں بلایا جاتا ہے۔ اب جہاں قدم قدم پر معمولی معمولی باتوں پر مذاکرات کا التوا ہوتا رہا ہو اور خود اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل ماضی میں بھی مذاکرات کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کے باوجود کامیاب نہ ہوئے ہوں وہاں تصور کیا جا سکتا ہے کہ پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کیسے شروع ہوں گے؟
ابھی تو خیر مذاکرات کے سلسلے میں آنکھ مچولی سی جا رہی ہے۔ اعلان ہوتا ہے کہ فلاں تاریخ کو مذاکرات ہوں گے اور نہیں ہو پاتے لیکن ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ دونوں ملکوں میں مذاکرات جب بھی ہوئے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ بھٹو، سورن سنگھ مذاکرات تو طویل ترین تھے۔ لیکن یہ بھی محض نشستندو گفتند و برخاستند ہی ثابت ہوئے۔ اب اگر بان کی مون نے مذاکرات شروع کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کی ہیں تو یہ ضروری ہے کہ وہ خود اس ضمن میں پیش رفت کریں۔ پیرس میں پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان مصافحہ تو ہوگیا ہے دونوں نے تھوڑی بہت بات چیت بھی کرلی ہے اب اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات بحال ہو جاتے ہیں تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔ ملاقات کے بعد مذاکرات شروع کرنے کے لئے کوئی میکانزم بنا دیا جائے تو ممکن ہے آئندہ چند ماہ میں یہ شروع ہو جائیں۔بھارت کا موقف ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت دونوں فریقوں کو اپنے باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہئیں۔ اگر دنیا کا کوئی ملک حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس سلسلے میں کوئی پہل یا پیشرفت کرتے ہیں تو بھارت اسے ’’تیسرے فریق کی مداخلت‘‘ سے تعبیر کر دیتا ہے، حالانکہ عملاً یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے کہ دو طرفہ مذاکرات ہمیشہ بے نتیجہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ اس لئے اگر بان کی مون کی یہ پیشکش محض زبانی جمع خرچ نہیں ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں جس کے تحت مذاکرات نہ صرف شروع ہو جائیں بلکہ نتیجہ خیز بھی ہوں۔ یو این او اگر مذاکرات کو مانیٹر کرنے کا اہتمام کرے تو زیادہ اچھا ہوگا۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر بنیادی تنازعہ ہے اور یہ آج تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ اس کے بعد جو مسائل اس عالمی ادارے کے سامنے آئے وہ اس نے مختصر مدت میں حل کرا دیئے لیکن 67 سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود مسئلہ کشمیر ابھی تک حل ہونے میں نہیں آ رہا کشمیریوں نے اس سلسلے میں جانی و مالی قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ دو عشرے سے بھی زیادہ عرصہ قبل کشمیریوں نے اپنی جو جدوجہد شروع کی تھی وہ اب تک مسلسل جاری ہے اس سلسلے میں کشمیریوں کی تمام ریلیاں اور جلسے پر امن ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے اور اس معاملے پر ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جواب میں ان پر گولیاں چلائی جاتیں اور مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ان کی یہ جدوجہد آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی ہے وہ اپنے مطالبات کے حق میں پر امن احتجاج کے طور پر ہڑتال کا حق بھی استعمال کرتے رہتے ہیں اور دُنیا بھر میں یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ یہ سیاسی جدوجہد ہے اور اقوام متحدہ کے منشور کے تحت بالکل جائز ہے۔ اگر اس کے اندر ماضی میں تشدد کا کوئی عنصر تھا بھی تو اب بالکل نہیں ہے۔ جتنی ہڑتالیں کشمیر میں ہو چکی ہیں اتنی شاید دنیا میں کسی معاملے پر آج تک نہیں ہوئیں یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتی اور مذاکرات کے ذریعے اس کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔بھارت کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ بان کی مون کی پیش کش قبول کر کے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرے اور ان مذاکرات کے ذریعے نیک نیتی کے ساتھ ان کو نتیجہ خیز بنائے بھارتی رہنما اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کا مسئلہ سرد خانے کی نذر ہو جائے گا تو یہ بات ماضی میں بار بار غلط ثابت ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ہو جائے گی کہ ایسا نہیں ہوا اور کشمیر کو نظرانداز کرکے خطے میں امن کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر یہی ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرے اور مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرے۔ اس کے بعد ہی خطے میں امن و خوشحالی کا دور شروع ہو سکے گا۔