کیا کراچی کے حالات واقعی بہتر ہو رہے ہیں؟

کیا کراچی کے حالات واقعی بہتر ہو رہے ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ کراچی میں بدامنی پھیلانے والے دہشت گرد مُلک دشمن ہیں، ان دہشت گردوں کا خاتمہ کریں گے، ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے جا سکتے ہیں، دہشت گرد عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے، قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے جلد نئے قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرائے جائیں گے،امن کی بحالی کے لئے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم مل کر کام کریں،وفاق سیاسی ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کردار ادا کرے گا، ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کی جائے، حکومت ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں دے گی۔ صوبے خصوصاً کراچی میں امن قائم ہونے کا کریڈٹ وزیراعلیٰ کو جاتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی کراچی میں امن و امان کے قیام پر توجہ مرکوز کر دی تھی اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ’’کپتان‘‘ بنا کر اُن کی نگرانی میں کراچی آپریشن شروع کیا گیا تھا، وزیراعظم کے خیال میں کراچی کے حالات بہتر ہوئے ہیں اور اس کا سہرا سید قائم علی شاہ کے سر بندھتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے اور حالات بہتر ہیں اور بہتر ہوتے ہوئے نظر بھی آتے ہیں، تو پھر واقعی اس کا سہرا بوڑھے کپتان کے سر ہی بندھنا چاہئے، جنہوں نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود حالات بہتر کر دکھائے، لیکن یہ جو پولیس والوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ ڈاکٹروں کو چُن چُن کر ہدف بنایا جا رہا ہے، را ہ گیر راہ چلتے چلتے مارے جا رہے ہیں۔ اگر حالات واقعی بہتر ہو رہے ہیں، تو یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ آئے روز بازار احتجاج کے طور پر بند کیوں ہو جاتے ہیں؟ اور کیا احتجاج کرنے والے اس میں حق بجانب ہیں؟ تازہ واقعہ میں کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو ماورائے عدالت قتل کیاگیا، یہ کارکن پولیس کی تحویل میں تھا، پھر اچانک اس کی لاش ملی۔ وزیراعظم نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ سیاسی کارکنوں کے قتل میں جو بھی ملوث ہوا اُسے قرار واقعی سزا دی جائے گی، یہ سب درست ہے اور کراچی کے حالات بھی مائل بہ اصلاح ہیں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزانہ، جو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہو رہے ہیں یہ کون کر جاتا ہے، قتل اور دہشت گردی کے جو واقعات شہر میں ہو رہے ہیں اول تو ان کا سراغ نہیں ملتا اور اگر پولیس کسی واقعے کا پیچھا کرتے کرتے اور کھرا ناپتے ناپتے کسی مجرم تک پہنچ جاتی ہے، تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو ’’سیاسی کارکن‘‘ ہے اب ایسے ’’سیاسی کارکن‘‘ کا کیا کِیا جائے، جو جرائم میں ملوث ہوتا ہے، ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے، راہزنی کی وارداتیں بھی کرتا ہے، لیکن جب پکڑا جاتا ہے یا اُسے خوف ہوتا ہے کہ اب وہ پکڑا جائے گا، تو وہ ’’سیاسی کارکن‘‘ ہونے کا فائدہ اٹھاتا ہے، اب اگر ایسے کسی شخص کو گرفتار کیا جائے، تو اُس کے سیاسی سرپرست میدان میں آ جاتے ہیں۔
کراچی کے حالات کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی کارکنوں اور جرائم پیشہ افراد میں واضح لکیر کھینچ دی جائے اور یہ طے کر لیا جائے کہ جو بھی جرائم میں ملوث ہو گا اگر اس کا جرم ثابت ہوتا ہے، تو اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہو گا اور جرم شہادتوں سے قانون کی عدالتوں میں ثابت ہو جائے، تو اسے سزا کا سامنا بھی کرنا ہو گا، ایسی صورت میں اس کا سیاسی کارکن ہونا کسی کام نہ آئے گا۔ اگر جرائم کرنے والے لوگ سیاسی چھتریوں کے نیچے پناہ لیتے رہیں یا سیاست دان جرائم پیشہ لوگوں کو اپنی سیاسی جماعتوں میں چھپنے کا راستہ دیتے رہیں، تو جرائم پر قابو پانا محال ہو گا اور اسے محض دیوانے کا خواب سمجھا جائے گا۔ اگر کوئی سیاسی کارکن کوئی جرم کرتا ہے، تو اُسے اس کے جرم کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔اُس کے کسی سرپرست کو اُس کی حمایت میں آگے نہیں آنا چاہئے۔
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ کسی نہ کسی طرح سیاسی جماعت میں گھس جاتے ہیں اور پھر اس کی آڑ میں اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں، یا پھر یہ ہوتا ہے کہ خود سیاست دان ایسے لوگوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور جب وہ قانون کی زد میں آنے لگتے ہیں تو انہیں بچانے کے لئے آ جاتے ہیں، پولیس میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو قانون شکنوں کی کسی نہ کسی انداز میں سرپرستی کرتے ہیں اور اگر کسی جگہ چھاپہ پڑنے والا ہوتا ہے، تو اس کی قبل از وقت اطلاع جرائم پیشہ افراد تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ بدل لیتے ہیں، پولیس میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے بھی جرائم پیشہ افراد نہیں پکڑے جاتے، انہیں جن سیاست دانوں نے بھرتی کرایا ہوتا ہے، وہ اس کی جائز و ناجائز خواہشات پوری کرتے ہیں اور یوں جرائم پیشہ لوگوں کے قانون سے بچنے کی راہ ہموار ہوتی رہتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر جرائم پیشہ افراد سے لاتعلقی کا ڈیکلریشن جاری کریں اور اپنے اور بیگانے دہشت گردوں کی تفریق نہ کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے خود بھی کہا ہے کہ کراچی کے حالات بہتر ہو رہے ہیں اور انہوں نے وزیراعظم کو یہ رپورٹ بھی دی ہو گی، اسی لئے انہوں نے بھی یہ اعلان کر دیا، لیکن کراچی میں اُن لوگوں کی کمی نہیں، جو کراچی کے حالات سے مطمئن نہیں ہیں اور اصلاحِ احوال کے دعوؤں کو نہیں مانتے، ان کے خیال میں کراچی میں بھتے اب بھی وصول کئے جا رہے ہیں،ٹارگٹ کلنگ بھی جاری ہے، راہ چلتے لوگوں سے گاڑیاں اور موبائل بھی چھینے جا رہے ہیں اور آرگنائزڈ طریقے سے یہ جرائم ہو رہے ہیں۔جب ایسے جرائم میں ملوث لوگ پکڑے جاتے ہیں،تو اُن کے سرپرست اُنہیں بچا لے جاتے ہیں۔
وزیراعظم نے ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا اعلان کیا ہے ممکن ہے، اس طرح مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جا سکے اور جرائم پیشہ لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے،وزیراعظم کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ ماورائے عدالت ہلاکتیں نہیں ہونی چاہئیں، جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑ کر عدالتوں کے سپرد کر دینا چاہئے، وہ جو بھی سزا سنائیں اس پر عمل ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو مل کر چلنے کا جو مشورہ دیا ہے وہ اگرچہ صائب ہے اور دونوں جماعتیں طویل عرصے تک ایک دوسری کے ساتھ مل کر چلتی بھی رہی ہیں، تو اب دیکھنا ہو گا کہ وزیراعظم کا مشورہ کس انداز میں مانا جاتا ہے،کیونکہ دونوں جماعتیں گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے راستے الگ کر چکی ہیں اور دونوں کے رہنماؤں کی بیان بازی چاندی ماری کی صورت میں جاری رہتی ہے۔ اب تو اختلاف اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ متحدہ سندھ میں مارشل لا لگانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں اگر دونوں جماعتیں پھر مل بیٹھیں تو یہ سیاسی کرشمہ ہی ہو گا۔

مزید :

اداریہ -