پاک چین اقتصادی راہداری چینی سفیر کی نظر میں

پاک چین اقتصادی راہداری چینی سفیر کی نظر میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں چین کے سفیر سن ویڈونگ نے کہا ہے کہ پاکستان ایشین ٹائیگر بننا چاہتا ہے تو اقتصادی راہداری منصوبہ اس کے اڑنے کے پر ہیں، توانائی منصوبوں سے پاکستان میں بجلی کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ چین2014ء سے پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے، چین نے دو سال میں پاکستان میں دُنیا کی سب سے بڑی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی، سی پیک کا فائدہ نہ صرف پاکستان، چین بلکہ خطے کے لوگوں کو بھی ہو گا۔ دونوں ملکوں کے رہنما سی پیک کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، سائنسی منصوبہ بندی کے تحت قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ چینی سفیر نے اِن خیالات کا اظہار آل پاکستان چائنا فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سی پیک کا منصوبہ جب سے سامنے آیا ہے اسے کسی نہ کسی انداز میں متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ روٹ وغیرہ کے تنازعات دور کرنے کے لئے وزیراعظم نے دو آل پارٹیز کانفرنسیں بُلائیں، جن کے بعد لگتا تھا کہ اختلافات بڑی حد تک رفع ہو گئے ہیں، لیکن پھر اچانک خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے یہ مسئلہ بڑی بلند آہنگی سے اُٹھا دیا، اور کہا کہ وفاقی حکومت اس اقتصادی راہداری کے ذریعے پنجاب کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاناچاہتی ہے، جبکہ مغربی روٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، پھر انہوں نے مخالف جماعتوں کی ایک ملٹی پارٹی کانفرنس بھی بٍُلا لی،جس میں اگرچہ تمام جماعتیں تو شریک نہ ہوئیں، لیکن اسے بھی نام آل پارٹیز کانفرنس کا ہی دیا گیا، اس کے ساتھ ہی بی این پی(مینگل) نے بھی اسلام آباد میں ایک آل پارٹیز کانفرنس بُلا لی،جس میں اقتصادی راہداری کے ضمن میں بعض مطالبات کئے گئے، البتہ موخر الذکر اے پی سی میں زیادہ زور گوادر کے حوالے سے دیا گیا۔
ان دونوں کانفرنسوں میں جو مطالبات اُبھر کر سامنے آئے اُن کے پیشِ نظر وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت تمام رہنماؤں کا اجلاس بُلا کر سب کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی اور شرکا کو بتایا کہ مغربی روٹ پہلے تعمیر کیا جائے گا ،اس کے لئے فنڈز مختص کرنے کا بھی اعلان کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر ضرورت پڑی تو مزید فنڈز بھی دیئے جائیں گے۔ ابتدا میں مغربی روٹ چار رویہ ہو گا اور اسے چھ رویہ کرنے کی گنجائش رکھی جائے گی، اس مقصد کے لئے زمین صوبائی حکومت خریدے گی اور زمین کی خریداری کے لئے فنڈز وفاقی حکومت دے گی، مغربی روٹ کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں صنعتی زون بنیں گے اس کے لئے صوبائی حکومت کی مشاورت سے فیصلہ ہو گا۔ بظاہر یہ معاملہ طے ہو گیا، لیکن لاہور کی ’’اورنج لائن‘‘ ٹرین کے سلسلے میں اب بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہے اور راہداری کے فنڈز اس ٹرین منصوبے پر خرچ کئے جا رہے ہیں، حالانکہ صوبائی حکومت وضاحت کر چکی ہے کہ نہ تو اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک ہے اور نہ ہی اس کے فنڈز اس پراجیکٹ کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔البتہ اس منصوبے پر بھی سرمایہ کاری چینی بینک کر رہا ہے۔


ابھی یہ طوفان تھما نہیں تھا کہ اورنج لائن راہداری کا حصہ ہے یا نہیں کہ یہ شوشا بھی چھوڑ دیا گیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا کوئی فائدہ جنوبی پنجاب کو نہیں پہنچ رہا، پھر یہ بھی کہا گیا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں دیر کو بھی اس سے کوئی حصہ نہیں مل رہا۔ ویسے اگر جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں سے راہداری کا روٹ گزر جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، لیکن چودھری شجاعت حسین کی یہ بات بھی پلے باندھنے والی ہے کہ ہر شخص کے دروازے کے سامنے سے تو اس روٹ کو نہیں گزارا جا سکتا، جو علاقے کسی وجہ سے اس روٹ کے راستے میں نہیں آتے اُنہیں بلاوجہ کھینچ تان کر تو روٹ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا، اِس لئے اگر جنوبی پنجاب یا دیر وغیرہ اس سے مستفید نہیں ہو رہے تو اس کا ازالہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ دوسرے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ان دونوں علاقوں کے معروف مقامات کو اقتصادی کوریڈور سے مِلا دیا جائے، یا پھر کوئی دوسری صورت ایسی نکالی جائے، جس کے ذریعے ان دونوں علاقوں کو بھی ترقی کے یکساں مواقع مل سکیں، پورے مُلک کو خصوصاً پسماندہ علاقوں کو ترقی میں سے حصہ ملنا چاہئے، لیکن یہ بات پیشِ نظر رکھنے والی ہے کہ جو علاقے پہلے سے نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ ہیں یا بڑے شہر ہیں وہاں سرمایہ کاری قدرتی طور پر زیادہ ہی ہو گی،کیونکہ ان شہروں کی آبادی زیادہ ہے۔


چینی سفیر نے اقتصادی راہداری منصوبے کو ’’اڑنے کے پر‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جس سے منصوبے کی افادیت پوری طرح سمجھ میں آ جاتی ہے اِس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اب منصوبے پر عملی کام شروع کیا جائے اور نظری بحثوں پر کم سے کم وقت صرف کیا جائے۔ چین اس وقت سعودی عرب،مصر اور ایران میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے جہاں سے کسی منصوبے کے نزاع کی کوئی خبر نہیں آئی۔ اگر ہمارا اقتصادی راہداری منصوبہ کسی بھی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتا رہا تو چین اپنے فنڈز دوسرے ملکوں میں بھی منتقل کر سکتا ہے اِس لئے کوئی بھی ایسی صورت قطعاً پیدا نہیں ہونی چاہئے، جس کی وجہ سے منصوبے میں تاخیر ہو یا یہ تاویلات کے اُلجھاؤ کا شکار ہو، اب ساری توجہ اقتصادی راہداری کی تعمیر پر صرف ہونی چاہئے اور جہاں جہاں سیکیورٹی کے انتظامات درکار ہیں اُن پر توجہ دینی چاہئے۔

مزید :

اداریہ -