عمران خان اصلاحاتی عمل کا حصہ بن کر ہی اسے نتیجہ خیز بناسکتے ہیں
پاکستان میں مئی2013 میں عام انتخابات ہوئے، جمہوری انداز میں انتقال اقتدار ہو گیا، پاکستانی سیاست میں اس کو خوش آئند موڑ قرار دیا گیا،سب نے اس کا خیر مقدم کیا،انتخابی عمل پر سوالیہ نشان تو کھڑے ہوئے لیکن پھر بھی تمام سیاسی جماعتوں نے خوشدلی یا بددلی سے اس کے نتائج کو تسلیم کر لیا تاہم وقتاً فوقتاً انتخابی عمل کو نشانہ ضرور بنایا جاتا رہا۔باقی سیاسی جماعتوں نے تو جمہوریت کی خاطر سمجھوتہ کر لیا لیکن تحریک انصاف کسی طرح مان کر ہی نہیں دے رہی۔ انتخابی عمل کی کمزوریاں ہی پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کی بنیاد بھی بن گئیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا تاکہ آئندہ عام انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے اورانتخابی عمل کو دھاندلی سے پاک کیا جا سکے۔رواں سال جولائی میں انتخابی اصلاحات کے لئے 33 ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ۔اسی سلسلے میں الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لئے مجوزہ ترامیم پر مشتمل ڈرافٹ بھی تشکیل دیا ہے۔ یہ ڈرافٹ ا لیکشن کمیشن کے سیکریٹری اشتیاق احمد نے منگل کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی زیر صدارت الیکشن کمیشن کے اجلاس میں پیش کیا۔
الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ تجویز کردہ اصلاحات کو حتمی شکل دینے کے لئے آئین کے آرٹیکل224(1) میں ترمیم لازم ہے جس کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے یا کسی وجہ سے تحلیل ہونے کی صورت میں60 دن کے اندر اندر عام انتخابات کرانا لازم ہے۔ الیکشن کمیشن نے تجویز کیا ہے کہ اس مدت کو 120 دن کر دینا چاہئے تاکہ انتخابی عمل کی تیاری میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے اور اس کے علاوہ انتخابی مہم کے لئے دیئے جانے والے وقت میں بھی اضافہ کر دیا جائے۔ پولنگ اسٹیشنز کی لسٹ کی تکمیل اور پولنگ سٹاف کی تقرری کا عمل انتخابات سے ساٹھ دن پہلے ہی پورا کر لیا جائے۔الیکشن سٹاف بشمول ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز، پریذائیڈنگ آفیسرز اور باقی تمام الیکشن ڈیوٹی سٹاف براہ راست الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔
انگوٹھا لگانے کی بجائے بائیو میٹرک سسٹم اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لئے قانون سازی کی سفارش بھی کی گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے اس لئے حکومت 31دسمبر 2014ء تک ہر صورت قانون سازی مکمل کرے، قانون سازی ہونے پر 6 ماہ میں بائیو میٹرک اور الیکٹرانک ووٹنگ پائلٹ منصوبے کا آغاز کر دیا جائے گا تاکہ اگلے انتخابات (اگر وہ 2016ء کے بعد ہوتے ہیں )میں اس کا استعمال ممکن بنایا جا سکے ۔الیکشن کمیشن نے ایم وی ایم بائیو میٹرک کے استعمال کے لئے بھی 60 دنوں میں قانون سازی کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔یقیناًیہ ایک اچھی تجویز ہے اور اس پرجلد قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ اس نظام کے متعارف کرائے جانے سے انگوٹھوں کی تصدیق اور غیر معیاری سیاہی کے استعمال جیسے مسائل کو بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے لئے قانون سازی کی تجویز بھی دی ہے، اس سلسلے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کو پہلے بھی بل بھیجا گیا تھا ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی ،منسٹری آف اوور سیز پاکستانیز کی جانب سے بھیجے جانے والے بل پر بھی غور کر سکتی ہے جس کے مطابق بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو مخصوص سیٹوں کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جا سکتی ہے۔ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کو حق رائے دہی کیسے دیا جا سکتا ہے، اس کے لئے فول پروف نظام کیسے بنایا جائے گا،ان کومخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندگی دینے کے فائدے و نقصانات کیا ہوں گے، اس کا فیصلہ تو پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے ۔
الیکشن کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ جیوگرافکل انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے تحت آئندہ انتخابات سے پہلے مردم شماری کرائی جائے تاکہ اس کے نتائج کی بنیاد پرحلقہ بندی کی جا سکے کیونکہ 1998 ء کے بعد سے آبادی کے تناسب میں نمایاں تبدیلی آ چکی ہے۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی تقریباً تیرہ کروڑ تھی جو کہ اب بڑھ کر اندازاً اٹھارہ کروڑ ہو چکی ہے۔ ویسے وزیراعظم نواز شریف 2014ء میں مردم شماری کرانے کے احکامات پہلے ہی جاری کرچکے ہیں اور امید ہے کہ پندرہ سال بعد پاکستان میں مردم شماری ہو ہی جائے گی۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلدیاتی الیکشن کے لئے لوکل کونسل بنائی جائے اوراسی فیصلے کی روشنی میں لوکل کونسل کی حد بندیوں کے لیے قانون سازی کی جائے۔سپریم کورٹ 15 نومبر2014 ء تک بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم جاری کر چکی ہے، کونسل کی حد بندی کی قانون سازی کی بدولت بلدیاتی انتخابات دوبارہ التواء کا شکار ہو سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے قومی وصوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے موجودہ نظام پر نظر ثانی کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ ان کے مطابق مخصوص نشستیں کسی جماعت کی منتخب نشستوں کی بنیاد کی بجائے سیاسی جماعت کو ملنے والے کل ووٹوں کے حساب سے تقسیم کی جائیں۔ہر پارٹی مختص سیٹوں کے لئے اپنے نمائندوں کے نام کی لسٹ ریٹرننگ آفسر یا صوبائی الیکشن کمیشن کو جمع کرائے۔پھر ہر پارٹی کے نمائندے کی موجودگی میں قرعہ اندازی کے ذریعے ناموں کی ترجیحی فہرست تیار کی جائے گی۔الیکشن کمیشن کے نزدیک یہ زیادہ’ جمہوری عمل‘ ہے، لیکن اس میں ’جمہوریت‘ کی کافی کمی نظر آ رہی ہے، جب تک اسمبلی میں مخصوص نشستیں موجودہیں ، تب تک ان کی تقسیم کے لئے رائج شدہ نظام ہی بہتر ہے۔اس کو چھیڑنے کی ایسی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اگر ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد کے حساب سے تقسیم کا فیصلہ کیا گیا تو اسمبلی میں توازن قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔اسی طرح نمائندوں کی فہرست بھی جماعت کی جانب سے ہی جمع کرائی جاتی ہے اور اس کے مطابق مخصوص نشستوں پر انتخاب عمل میں آتا ہے، یہی طریقہ مناسب اور بہتر ہے، اس کے لئے قرعہ اندازی کرنے کی کوئی تجویز معقول معلوم نہیں ہوتی، جس جماعت کے پاس اکثریت ہے ، اس کی ہی صوابدید پر نمائندوں کا انتخاب ہونا چاہئے۔ویسے بھی عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی کے فیصلے قرعہ اندازی کے ذریعے کیسے کیے جا سکتے ہیں؟اصلاحات یا ترامیم انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لئے ہونی چاہئے، ان کا مقصد موجودہ نظام کو یکسر بدلناہرگز نہیں ہے۔
ہم سو فیصد متفق ہیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی اصلاحات پر غور و خوض کر کے ان پر فوری قانون سازی کی جائے ۔تاکہ اگلے عام انتخابات سے پہلے انتظامات مکمل کئے جا سکیں۔انتخابی اصلاحات وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اور اس عمل کو پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی رضامندی سے ہی تکمیل تک پہنچنا چاہئے۔ انتخابی اصلاحات کے ذریعے ہی نظام کو فعال بنایا جا سکتا ہے،تبدیلی لائی جا سکتی ہے،پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس عمل کا حصہ بننا چاہئے۔ ان کے چھ مطالبات میں سے ایک مطالبہ انتخابی اصلاحات بھی ہیں، اب جب وقت آ گیا ہے تو ان کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے، عمران خان کو ہرگز اس کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے۔ انتخابی اصلاحات کے عمل میں حصہ دار بننے سے ہی معنی خیز نتائج حاصل ہو سکتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں بہتر انتظامات کئے جا سکتے ہیں ۔