وزیر داخلہ کی حقیقت بیانی
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو فوج، حکومت اور عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہے،آرمی چیف کو ہٹانے کی فوج میں کوئی سازش نہیں ہوئی۔ہم حالتِ جنگ میں ہیں، بے پرکی اُڑانے کی بجائے فوج کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ حالیہ تاریخ میں ہماری واحد فوج ہے، جس نے گوریلا لڑائی میں کامیابی حاصل کی، انہوں نے کہا کہ دھرنے کی انکوائریوں کی بجائے مسائل پر توجہ دی جائے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے منشیات بنانے اور فروخت کرنے والے بھی قومی سلامتی کے لئے اتنا ہی خطرہ ہیں، جتنا دہشت گرد، انہیں اپنی آنے والی نسلوں کو تباہ نہیں کرنے دیں گے، دہشت گردی اور ڈرگ مافیا کا گٹھ جوڑ ختم کریں گے، منشیات کی رقم دہشت گردی میں استعمال ہوتی ہے۔
یہ مقامِ مسرت ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت اور ادارے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں اپنے فرائض بحسن وخوبی ادا کر رہے ہیں، ویسے سیاست تو ایسا شعبہ ہے جس میں سیاست دانوں کے متعلق لوگوں کو کسی نہ کسی انداز کی شکایات رہتی ہیں، یہاں بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی یہ پوری دُنیا کا منظر نامہ ہے، دُنیا کے کامیاب ترین اور خوشحال ترین ممالک میں بھی سارے صدور یا وزرائے اعظم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہر دلعزیز نہیں ہوتے، نہ یکساں قابلیت کے حامل ہوتے ہیں وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ پاپولر رہنماؤں کے اقتدار کا سورج بھی ڈھل اور اُن کی شخصیت کا سحراُتر جاتا ہے۔ جمہوری ممالک کی تاریخ پر نگا دوڑائیں، تو یہ حقیقت الم نشرح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ امریکہ جیسی سپرپاور کے بہت سے صدور ایسے گزرے ہیں ،جن کی پالیسیوں کو بڑی آسانی سے ناکام قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ وہ مروج نظام کے تحت منتخب ہو کر برسر اقتدار آئے تھے اس لئے انہیں اُن کے عرصہ اقتدار میں برداشت کیا گیا اور جب وقت آیا تو انہیں ’’ووٹ آؤٹ‘‘ کر دیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم چرچل تھے، اُن کے تدبر کی بدولت برطانیہ نے جنگ جیتی تھی، لیکن جنگ جیتنے کے بعد جب برطانیہ میں نئے الیکشن ہوئے تو برطانوی ووٹروں نے اُن کی پارٹی کو ہرا دیا اور اس بات کا لحاظ نہیں رکھا کہ وہ جنگِ عظیم کے ہیرو ہیں، انہوں نے برطانیہ کو جنگ میں سرخرو کیا،اِس لئے انہیں تاحیات وزیراعظم بنا دیا جائے یا کم از کم ایک اور الیکشن ہی جتوا دیا جائے۔ نظام کے تحت انتخابات ہوئے اور امن کے دور کے لئے چرچل کی جگہ لارڈ ٹیلی کونیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا،لیکن ہمارے ہاں نظام کو چھوڑ کر دھرنوں کے ذریعے حکومت بدلنے کی کوشش کی گئی جسے ناکام بنا کر تدبرکاثبوت دیا گیا۔
پاکستان میں ایک آئین نافذ ہے، جس میں بدلتے وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ ترامیم ہوتی رہتی ہیں اب بھی اگر کبھی ضرورت محسوس ہو گی آئین میں مروجہ طریقے سے ترمیم کر لی جائے گی، لیکن پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کا راستہ اس آئین پر عمل درآمد کے راستے سے گزرتا ہے،اُن لوگوں کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، جو یہ سمجھتے ہیں کہ آئین پر عمل درآمد کی بجائے ماورائے آئین اقدامات کئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ چودھری نثار علی خان نے اگرچہ یہ درست کہا ہے کہ دھرنے کی انکوائری کی بجائے مسائل پر توجہ دی جائے، لیکن وہ دھرنے کے پورے عرصے میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں، انہیں حالات و واقعات کابالکل صحیح ادراک ہے اور انہوں نے ابھی کل ہی کہا ہے کہ وہ چاہیں، تو اس پر کتاب لکھ سکتے ہیں، چلئے وہ اگر انکوائریوں کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتے تو دھرنوں کے موضوع پر کتاب ضرور لکھ دیں تاکہ قوم کو پتہ تو چلے یہ سب کیا تھا اور کیوں تھا، اس وقت تو سارے فریق اپنا اپنا نقطہ نظر ، بلکہ ’’بیانیہ‘‘ دوہرانے میں لگے ہوئے ہیں، اور دوسروں کو جھٹلاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب سچ نہیں ہے نہ ہو سکتا ہے، سچ کو تلاش کرنا پڑے گا۔ چودھری نثار علی خان کو بھی اپنے حصے کا سچ بول ، بلکہ لکھ دینا چاہئے۔ اُن کی کتاب ریکارڈ کا حصہ بن گئی، تو مُورخین کو ان دھرنوں کی تاریخ لکھنے میں آسانی ہو گی ورنہ وہ بھول بھلیوں میں کھو کر رہ جائیں گے۔ چودھری نثار علی خان اگر یہ کام سرانجام دیتے ہیں تو عالمی سطح پر بھی اس کی پذیرائی ہو سکتی ہے۔
چودھری نثار علی خان نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بارے میں جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ اس وقت قوم کی آواز ہے۔ حکومت اور ریاست کے اداروں کو اپنے فرائض اپنی انتہائی صلاحیت اور دیانت داری سے ادا کرنے چاہئیں، پھر بھی کوئی کمی بیشی رہ جائے تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ سیاست دانوں اور فوج کا میدانِ عمل اپنا اپنا ہے۔ سیاست ہتھیار بند ہو کر نہیں کی جا سکتی، اور میدانِ جنگ میں توپ و تفنگ کے بغیر کامیابی نہیں ملتی، ان الگ الگ میدانوں کے لئے الگ الگ تربیت اور الگ الگ شخصیات کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے اس وقت اگر ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں یکسوہوکرقومی خدمت انجام دے رہے ہیں، تو اس پر خوش ہونا چاہئے، اور قنوطیت پسندوں کی طرح اس صورتِ حال کو بھی مخصوص عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ بعض لوگوں کا طرزِ عمل یہ ہے کہ اگر حکومت اور فوج میں کسی مسئلے پر اختلاف ہو تو وہ اسے اپنے مخصوص معنی پہناتے ہیں اور اگر دونوں اختلاف ختم کر کے ایک صفحے پر آ جائیں، تو وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوتے، ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اُن کا اطمینان ہروقت ایک گو نہ ہلے گلے میں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی اِٹ کھڑکا لگا رہے؟
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے اس عفریت پر قابو پانے میں فوج نے عظیم قربانیاں دی ہیں، اور قوم کے کڑیل جوانوں نے اس سر زمین کو اپنے خون سے سینچا ہے، اسی پاک خون کی برکت ہے کہ آج دہشت گرد اپنے بلوں سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے۔ پاکستان کی فوج نے ثابت کیا ہے کہ وہ اگر بیرونی دشمنوں کے دانت کھٹے کر سکتی ہے، تو اندرونی دشمنوں سے بھی نبٹ سکتی ہے۔ ریگولر فوج کا گوریلا لڑائی لڑنا اور اس میں معتدبہ کامیابیاں حاصل کرناحالیہ تاریخ کا واقعی درخشاں باب ہے، اور اس پر ہمیں فخر ہونا چاہئے۔ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوسرے مرحلے میں اگر دہشت گردوں کو مالی اعانت دینے والوں اور منشیات کے سمگلروں کا قلع قمع کرنے کا پروگرام ہے تو یہ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا دے گا، اور وہ وقت دور نہیں، جب اس جنگ میں قوم اور فوج سرخرو ہو گی اور ہمارا مستقبل درخشاں ہو گا اِن شا اللہ