قطر میں افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات
افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات کا دوبارہ آ غاز ہو گیا۔ فریقین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اتوار کوہونے والی دو روزہ کانفرنس میں اکٹھے ہوئے۔افغان طالبان کی حکومت کے نمائندوں سے ملاقات ایک علاقائی کانفرنس کا حصہ تھی جس کا اہتمام مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کو فروغ دینے والی بین الاقوامی تنظیم پگواش کونسل نے کیا تھا۔ افغانستان اور خطے میں تحفظ، امن اور استحکام قائم کرنے کے لئے فریقین ایک میز پر تو بیٹھ گئے ،لیکن ان کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔طالبان نے تحریری طور پر اپنے مطالبات و شرائط تمام شرکاء میں تقسیم کئے جن پر بحث مباحثہ بھی ہوا لیکن کوئی خاص نتیجہ بر آمد نہیں ہوا، اب توقع ہے کہ اگلی ملاقات جلد ہی متحدہ عرب امارات میں ہو گی۔اس وقت تو امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی طالبان کو کھل رہی ہے، وہ انہیں کسی طور بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ،طالبان کی خواہش ہے کہ امریکہ مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائے اورانہوں نے جنگ بندی کو امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ مشروط کر دیا ہے ۔اس کے علاوہ دوسری اہم شرط یہ رکھی گئی تھی کہ افغان حکومت طالبان کے دفتر کی حیثیت کو تسلیم کرے کیونکہ طالبان کے مطابق منظم بات چیت کے لیے انہیں ایک مستقل جگہ ، پتے اور دفتر کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ مذاکرات میں طالبان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے عالمی پابندیوں کی فہرست سے رہنماؤں کے نام نکالنے کا مطالبہ بھی کیا ۔دوسری طرف افغان حکومت کا اصرار ہے کہ پہلے طالبان ہتھیار ڈالیں، ویسے بھی امریکہ کے فوجی افغانستان میں صرف افغان فوجیوں کی تربیت کے لئے موجود ہیں، اگر طالبان بندوق رکھ دیں گے تو وہاں امن قائم ہو جائے گاجس کے بعد ملک میں امریکی فوجیوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔
اس کانفرنس میں افغان طالبان کی جانب سے آٹھ رکنی وفد نے شیر محمد عباس کی سربراہی میں شرکت کی جبکہ افغان حکومت نے 20 ارکان پر مشتمل وفد دوحہ بھیجنے کی تصدیق کی۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ افغان حکومت نے امید ظاہر کی تھی کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز اگلے چند دنوں میں متوقع ہے۔ گو کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدکا کہنا تھا کہ ان کو افغان حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات نہ سمجھا جائے بلکہ وہ صرف امن کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں ۔ قطر مذاکرات میں افغان امن کونسل کے اراکین کے علاوہ افغانستان میں موجود دوسری بڑی مزاحمتی تحریک حزبِ اسلامی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔افغان صدارتی ترجمان اجمل عابدی کا کہنا ہے کہ امن کونسل کے ارکان نے ذاتی حیثیت میں دوحہ میں مذاکرات میں شرکت کی۔مذاکرات میں پاکستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔عام خیال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے صدر اشرف غنی سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا وعدہ کیا تھا ۔
اتوار کو دفتر خارجہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ پاکستان اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ ہمسایہ افغانستان میں استحکام جنوبی ایشیا میں قیام امن کیلئے انتہائی اہم ہے اور مستحکم افغانستان کے نتیجے میں خطے میں قیام امن یقینی ہو گا، پاکستان نے افغانستان اور خطے میں امن و استحکام و ترقی کو یقینی بنانے کیلئے ہمیشہ افغانستان کی قیادت میں افغان مفاہمتی عمل کی حمایت کی ہے۔ قطر میں طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے درمیان حالیہ مذاکراتی عمل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹریک ٹو ڈائیلاگ ہے اور امید ہے کہ یہ باضابطہ مذاکرات کیلئے راستہ ہموار کرے گا۔امریکہ اور چین بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرا ت کے حامی ہیں۔
طالبان اور افغان حکومت میں اس سے قبل2013ء میں بھی مذاکرات کی بات نکلی تھی لیکن پھر طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھول لیاجہاں انہوں نے اپنا سفید جھنڈا لہرایاجو اس وقت کی افغان حکومت کو کافی گراں گزرا ،سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے اعتراض کیے جانے کے بعد یہ دفتر بند کر دیا گیا تھا اورساتھ ہی مذاکرات کا دروازہ بھی بند ہو گیا تھا۔ گزشتہ کافی عرصے سے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کی جا رہی تھی،صدر اشرف غنی تو طالبان کے ساتھ معاملات حل کرنے پر تیار تھے، اس سلسلے میں چین بھی کافی عرصے سے سرگرم ہے اوراس نے گزشتہ سال طالبان کے رہنما سے ملاقات بھی کی ۔چین نے مذاکرات کے لئے میزبانی کی پیشکش بھی کی تھی۔افغانستان میں امن چین کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے، اس سے چین کے سرحدی صوبے میں موجود دہشت گردوں کے خاتمے میں مدد ملے گی۔پاکستان کی بھی اولین ترجیح یہی ہے کہ افغانستان اور طالبان کے درمیان مسائل پر امن طریقے سے حل ہو جائیں ،پاکستان مذاکرات کا حامی ہے اوروہ سہولت کار کے فرائض سرانجام دینے کی پیشکش بھی کر چکا ہے۔پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے کے ساتھ مشروط ہے۔اگرافغانستان میں حالات ٹھیک ہوں گے تو ہی پاکستان میں سکون ہو گا اور صحیح معنوں میں خطے میں امن و استحکام قائم ہو گا۔
ابھی تک افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کے کوئی مثبت نتائج تو سامنے نہیں آئے لیکن دونوں فریقوں کو کھلے دل و دماغ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ رہنا چاہئے ، تیرہ سالہ اس جنگ میں ہزاروں افغان زندگی کی بازی ہار گئے پھر بھی وہاں امن قائم نہیں ہو سکا۔ نیٹو فوجوں کے انخلا کے بعد ان کے پاس بندوق اٹھانے کا کوئی بھی جواز باقی نہیں رہا، اس سے پہلے وہ مصر تھے کہ ان کی جدو جہد غیر ملکی فوجیوں کے خلاف ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ طالبان ا ور افغان حکومت کا ایک موقف پر یک آواز ہو جانا بہت آسان بات نہیں ہے، اس کے لئے وقت درکار ہو سکتا ہے لیکن مذاکرات کا یہ سفر ہر صورت جاری رہنا چاہئے۔