جسٹس باقر نجفی ٹریبونل اور جسٹس خلیل الرحمن کمیٹی کی رپورٹیں

جسٹس باقر نجفی ٹریبونل اور جسٹس خلیل الرحمن کمیٹی کی رپورٹیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کی روشنی میں حتمی نتیجہ اَخذ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں اس آپریشن کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کیا گیا،جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں،حالانکہ اس سے بچا جا سکتا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا بیان بعد کا خیال ہے، عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد کر کے مستقبل میں اِس قسم کے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک رکنی ٹریبونل نے واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کی پہلی کانفرنس کی سی ڈی کا بغور جائزہ لیا، اس میں وزیراعلیٰ نے پولیس ہٹانے کے حوالے سے اپنی ہدایات کا ذکر نہیں کیا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پولیس کو ہٹانے کا حکم جاری ہی نہیں کیا گیا۔ ماڈل ٹاؤن میں تین سال تک حفاظتی رکاوٹیں لگی رہیں،لیکن اچانک نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے کارروائی کر دی گئی، وزیراعلیٰ کے حکم پر رکاوٹیں ہٹانے کی کارروائی کی گئی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اِس خون کی ہولی کے حالات و حقائق میں یہ بات واضح ہے کہ پولیس نے اس قتلِ عام میں بڑی پھرتی سے حصہ لیا،اِس معاملے میں پنجاب کی تمام اتھارٹیز کی غفلت اور لاپرواہی ہے،جس سے ان کے بے گناہ ہونے پر شک پیدا ہوتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ کس کے حکم پر ہوئی،کوئی بتانے کو تیار نہیں۔پولیس نے وہی کیا جس کے لئے بھیجا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سچ کا سراغ لگانے کے لئے ٹریبونل کو مناسب اختیارات نہیں دیئے گئے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے یہ رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے خلاف پنجاب حکومت نے اپیل دائر کی، جس کا فیصلہ گزشتہ روز ہی سنایا گیا اور فل بنچ نے بھی سنگل بنچ کا حکم بحال رکھا اور ایک ماہ کے اندر اندر رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا، جس پر پنجاب حکومت نے فوری طور پر رپورٹ شائع کر دی۔ اِس رپورٹ میں خاص طور پر کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا تاہم تمام متعلقہ افراد کو اس جرم میں قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر اِس بات کا انکشاف نہیں کیا گیا کہ وہ کون تھا جس نے پولیس کو فائرنگ کا حکم دیا،لیکن اس کے باوجود رپورٹ میں یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا ہے کہ پولیس نے وہی کام کر دکھایا جو اُسے کرنے کے لئے وہاں بھیجا گیا۔رپورٹ میں اس اجلاس کا حوالہ دیا گیا ہے جو وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی صدارت میں16جون 2014ء کو ہوا تھا (رپورٹ میں غلطی سے سن2017ء لکھ دیا گیا ہے) اور جس میں پنجاب کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے، اس ا جلاس میں رانا ثنا اللہ طے کر چکے تھے کہ طاہر القادری کا مارچ کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ اجلاس میں ان رکاوٹوں کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا جو منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر سڑک پر کھڑی کی گئی تھیں، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر کسی نے جان بوجھ کر ایک دوسرے کو قانون کی پکڑ سے بچانے کی ناکام کوشش کی۔
پنجاب حکومت نے عدالتِ عالیہ کا حکم ملتے ہی نجفی رپورٹ فوری طور پر پبلک کر دی ہے، اب اس کی روشنی میں اُن مقدمات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے جو اِس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور جن میں مدعیوں کی طرف سے متضاد موقف اختیار کرنے کی اطلاعات ہیں۔اس رپورٹ کی اشاعت پر بہت زیادہ زور دیا جا رہا تھا اور عام خیال تھا کہ پنجاب کی حکومت اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی جو غلط ثابت ہوگیا،نہ جانے اِس طرح کی قیاس آرائی کی بنیاد کیا تھی، کیونکہ صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کا فیصلے سامنے آتے ہی اس رپورٹ کو عام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اپیل میں سپریم کورٹ جانے کی بات کسی ذمہ دار نے نہیں کی، البتہ طاہر القادری اور اُن کی جماعت کے کئی عہدیداروں کو شبہ ہے کہ رپورٹ میں ردوبدل کیا گیا ہے۔اس الزام میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں کوئی بات وثوق سے کہنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے ثبوت فراہم نہ کر دیئے جائیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ ردوبدل کا بیان بھی بدگمانی کی بنیاد پر اِس لئے جاری کیا گیا ہے کہ جس قسم کی رپورٹ بعض حضرات کی آنکھیں دیکھنا چاہتی تھیں یہ رپورٹ اس سے مختلف ہے۔ جب بلاوجہ قائم کی گئی توقعات پوری نہ ہوں تو ایسے ہی بیانات سامنے آیا کرتے ہیں۔ تاہم پنجاب حکومت کے ترجمان نے رپورٹ میں کسی قسم کے ردوبدل کی تردید کی ہے۔
جسٹس نجفی رپورٹ کے ساتھ ہی پنجاب حکومت نے جسٹس خلیل الرحمن خان پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی کی رپورٹ بھی جاری کر دی ہے، جس میں متعدد قانونی سوالات اُٹھائے گئے ہیں، جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ جسٹس نجفی کی رپورٹ کو قبول نہ کرے،کیونکہ یہ رپورٹ مفادِ عامہ کے منافی ہے۔اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امنِ عامہ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، جسٹس خلیل الرحمن نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ حکومت اِس معاملے میں انکوائری کرے اور اِس حوالے سے قانون منظور کروائے، نجفی رپورٹ میں ٹریبونل نے وزیراعلیٰ کے حوالے سے جائے وقوعہ کو پولیس سے خالی کروانے سے متعلق جو فائنڈنگ دی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں اور اِِس حوالے سے ٹریبونل کی اپنی رپورٹ میں تضادات موجود ہیں۔
جسٹس خلیل الرحمن نے لکھا کہ نجفی ٹریبونل بہت سارے حقائق سامنے نہیں لایا، ٹریبونل نے گلو بٹ کے واقعہ کا ذکر ہی نہیں کیا،حالانکہ ایس پی طارق عزیز نے اپنے بیان میں اس کا ذکر کیا، ٹریبونل نے بہت سے حقائق کو نظرانداز بھی کیا۔ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی رپورٹ کو بھی نظر انداز کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ طاہر القادری کے گھر سے فائرنگ ہوئی، جس سے تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے پہلو کو بھی نظر انداز کیا گیا مظاہرین کی براہِ راست فائرنگ سے کانسٹیبل ذیشان زخمی ہوا، ٹریبونل نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے خود کوجج تصور کر لیا۔ یہ بھی تصور کیا گیا کہ وزیر قانون نے طاہر القادری کواپنے مقاصد کے حصول کو پورا نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا،حالانکہ شہادت موجود ہے کہ وزیر قانون نے رکاوٹیں ختم کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا اور اس کی کوئی اور وجوہ نہ تھیں، کمیٹی نے یہ بھی لکھا کہ ٹریبونل نے جو آبزرویشنز دیں کسی ریکارڈ سے ثابت نہیں۔
جسٹس نجفی کی رپورٹ اور جسٹس خلیل الرحمن کمیٹی کی رپورٹ ایک ہی دن منظرِ عام پر آئی ہیں، دونوں فاضل شخصیات کی رپورٹوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو نجفی ٹریبونل کی رپورٹ کے تضادات واضح ہو جاتے ہیں۔اگرچہ خلیل الرحمن کمیٹی نے نجفی ٹریبونل رپورٹ منظرِ عام پر نہ لانے کے لئے کہا تھا،لیکن اب ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے حکومت کو اگر یہ رپورٹ سامنے لانی پڑی ہے تو پڑھنے والے خود اندازہ کر لیں گے کہ اس میں کون کون سے سُقم موجود ہیں، دونوں رپورٹوں کے موازنے سے بھی بہت سی باتیں سمجھ میں آتی ہیں اب یہ فیصلہ تو مجاز فورم پر ہی ہو گا کہ یہ رپورٹیں سچ تک پہنچنے میں کس حد تک معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

مزید :

اداریہ -