ویل ڈن،اسحاق ڈار!
معاصر کی یہ خبر بہت خوش کن اور مبارک ہے کہ حال ہی میں دوبئی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کی طرف سے چین کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں چھ ایٹمی ری ایکٹروں (بجلی گھروں) کے بارے میں تفصیلات کا مطالبہ کیا گیا تو پاکستان کے وفد نے اسے مسترد کر دیا، حتیٰ کہ اجلاس سے واک آؤٹ کر جانے کی دھمکی بھی دی، جس کے بعد آئی ایم ایف نے اس مطالبے پر زور نہیں دیا۔پاکستان اور چین کے درمیان توانائی بحران حل کرنے کے لئے کئی معاہدے ہوئے ہیں، انہی میں ایٹمی بجلی گھروں کے معاہدے بھی شامل ہیں، اس وقت تین ایٹمی بجلی گھر پہلے ہی کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد بڑھ کر چھ ہو جائے گی، جس سے ملک میں توانائی کے بحران کو حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ یہ معاہدے دو دوست ممالک کے درمیان ہیں۔ اول تو آئی ایم ایف کو ان کی تفصیلات خود ہی طلب نہیں کرنا چاہئے تھیں کہ یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا ،لیکن آئی ایم ایف عالمی مالیاتی ادارہ ہونے کے باوجود امریکی اثر میں ہے اور ایسی حساس معلومات بھی شاید امریکہ ہی کے لئے ضروری ہوں۔خبر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستانی وفد نے جو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں مذاکرات کر رہا تھا، دوسری طرف کے اصرار پر بھی معلومات نہیں دیں اور ایک مرحلے پر واک آؤٹ یا مذاکرات کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دے دی جس کے بعد یہ مطالبہ ترک کر دیا گیا۔ یہ واقعہ ہوا اور خوش آئند اور باعث طمانیت ہے کہ موجودہ حکومت اور خصوصاً اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف ہی کے حوالے سے طعنے برداشت کرنا پڑتے ہیں، اس فیصلے اور حوصلے کی داد دینا چاہئے کہ ایک آزاد اور خود مختار مُلک کے نمائندوں کا یہی چلن ہونا چاہیے۔ ویل ڈن، اسحاق ڈار!