دہشت گردوں کا مکمل صفایا۔۔۔ آگے بڑھنے کا راستہ

دہشت گردوں کا مکمل صفایا۔۔۔ آگے بڑھنے کا راستہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے، کور ہیڈ کوارٹر پشاور کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے مقررہ وقت میں آپریشن متاثرین کی باعزت واپسی کے لئے تمام ایجنسیوں میں روابط پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کی واپسی وسط مارچ میں شروع ہو جائے گی۔ جنرل راحیل شریف نے کہا آپریشن کے نتیجے میں بارڈر مینجمنٹ میں خودبخود بہتری آئے گی۔
آپریشن ضربِ عضب وسط جون2014ء سے جاری ہے اور اس عرصے کے دوران شمالی وزیرستان کا90فیصد علاقہ دہشت گردوں سے مکمل طور پر کلیئر کرا لیا گیا ہے، اب جو کارروائی ہو رہی ہے، وہ باقی ماندہ10فیصد علاقے میں ہے اور وہ وقت دور نہیں جب انشا اللہ یہ علاقہ بھی دہشت گردوں سے کلیئر کرا لیا جائے گا اس آپریشن کی تکمیل کے بعد آگے بڑھنے کا راستہ صاف ہو جائے گا اور آرمی چیف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کی وجہ سے جو لوگ اپنے گھروں سے دربدر ہو گئے تھے، آرمی چیف نے وسط مارچ (تقریباً ایک ہفتے بعد) سے ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی نوید سنائی ہے۔ متاثرین کے لئے یہ صحیح معنوں میں خوشخبری ہے، کیونکہ ان لوگوں نے آپریشن کی وجہ سے غیر معمولی مشکلات کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا ہے۔ انہوں نے گھر بار چھوڑا، کیمپوں میں مشکلات کا سامنا کیا،موسم کی سختیاں برداشت کیں۔ انہوں نے یہ ساری تکالیف وطن کی خاطر اٹھائیں، قبائلی رسم و رواج اپنی نوعیت میں خاص ہیں اور اگر ایسے قبائل کو گھر بار چھوڑ کر اِدھر اُدھر قیام کرنا پڑے تو قبائلی عوام خصوصاً خواتین کو کافی مشکلات درپیش آتی ہیں، ان حضرات نے مشکل وقت گزار لیا ہے اور اب ان کی واپسی کا عمل شروع ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا، توقع کرنی چاہئے کہ ان لوگوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ آباد کرنے کے لئے ہر طرح کی امداد فراہم کی جائے گی جن لوگوں کے گھر آپریشن کی وجہ سے متاثر ہوئے ان کی تعمیر و مرمت کے لئے فراخ دلی سے اس طرح امداد کی جائے گی کہ یہ لوگ اپنے اوپر گزرنے والی مشکلات کو بھول جائیں۔
پاکستان نے طویل عرصے سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کیا ہے، اس دوران قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور معیشت کو بھی ایک سو ارب سے زیادہ کا دھچکا لگاہے۔ دہشت گردوں نے مُلک بھر کو ٹارگٹ کر رکھا تھا، حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایئر پورٹ، دفاعی اڈے،جی ایچ کیو، نیول بیس، ہسپتال، سکول اور کالج، عوامی مقامات،مارکیٹیں، پبلک پارک،سیکیورٹی کے تربیتی ادارے، مساجد، امام بارگاہیں غرض کوئی بھی جگہ ان دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے محفوظ نہ تھی۔انہوں نے مُلک کی عمومی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا،معیشت تار تار تھی، فوجی قافلوں پر حملے کئے گئے، جن میں قیمتی افسروں کی جانیں گئیں،ایسے مقامات پر حملے کئے گئے، جہاں فوجی افسروں اور اُن کے بچوں کا اجتماع ہوتا تھا،ابھی دسمبر میں آرمی پبلک سکول پشاور کو سنگدلی سے نشانہ بنایا گیا، جن میں چھوٹے چھوٹے پھول سے بچوں کو نشانہ بنایاگیا، ان کی معلمات کو بھی سنگدلی اور بے رحمی سے قتل کیا گیا، لیکن دہشت گردوں کو بہرحال یہ واضح پیغام مل چکا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر لیں،اُن کا پیچھا کر کے اُن کا خاتمہ کیا جائے گا، جو دہشت گرد آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے اِدھر اُدھر پھیل گئے تھے اور مایوسی کے عالم میں کارروائیاں کر رہے تھے اب اُنہیں بھی چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی۔ دہشت گردوں کے جن منصوبہ سازوں اور سرپرستوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دوسرے اعلیٰ فوجی حکام کے مسلسل افغانستان کے دوروں کے نتیجے میں اب اُن کا وہاں زیادہ دیر تک روپوش ہونا ممکن نہیں رہ گیا، افغان حکام نے بھی پاکستان کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر اُن کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، چنانچہ اب افغان علاقے اُن کے چھپنے کے کام نہیں آئیں گے۔

افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے بعد اپنے ہاں کارروائیوں کا یقین دلایا ہے، جس کے بعد اب دہشت گرد وہاں سے بھی بھاگ رہے ہیں، اس وقت جو کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ اب اپنی تکمیل تک پہنچنے والی ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب دہشت گردی قِصۂ ماضی بن کر رہ جائے گی اور امن و آشتی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا، اس دور کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو اس میں جنرل راحیل شریف کا نام سنہری حروف میں درج ہو گا،جنہوں نے اپنے پیشرو چیف کی پالیسی کے برعکس بروقت آپریشن کا فیصلہ کر کے دہشت گردوں کو سخت پیغام دے دیا، موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے فوری بعد اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پوری کوشش کی تھی اور بات چیت کا ڈول بھی ڈالا تھا، لیکن یہ محسوس کیا گیا کہ دہشت گردوں نے بات چیت کی اس کوشش کو غالباً حکومت کی کمزوری پر محمول کیا اور اس دوران دہشت گردی کا سلسلہ بھی نہ رُک سکا، کچھ ایسے مطالبات بھی سامنے لائے گئے،جن کو قبول کرنا بھی ممکن نہ تھا، چنانچہ بات چیت کے اس سلسلے کو موقوف کر کے سخت اقدام کا فیصلہ کیا گیا، جو عملاً درست اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ آپریشن ضربِ عضب کے دوران جو دہشت گرد کسی نہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے انہوں نے مُلک کے مختلف حصوں میں پھیل کر کارروائیاں کیں۔ یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ ان سب وارداتوں میں آرمی پبلک سکول پر حملہ سنگین ترین تھا،جس سے پورے مُلک میں سنسنی کی ایک لہر سی دوڑ گئی، اس کے بعد ایمرجنسی میں طویل مشاورتی اجلاسوں کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، جس پر اب عملدرآمد شروع ہے، فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے اور ان کو بعض مقدمات بھی منتقل ہو رہے ہیں، اس دوران رُکی ہوئی پھانسیوں پر عمل درآمد بھی ہوا اور یہ سلسلہ قانونی طریقے سے جاری رہے گا۔ یہ سارے اقدامات دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی جانب رواں دواں ہیں اور توقع ہے کہ آرمی چیف کے عزم کی روشنی میں ہم بہت جلد مُلک میں مکمل امن و امان دیکھیں گے اور ہمارے بچے خوف و خطر کے بغیر زندگی گزاریں گے۔ معیشت پھلے پھولے گی اور مُلک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا۔

مزید :

اداریہ -