امریکہ کے خلاف عالم گیر مظاہرے

امریکہ کے خلاف عالم گیر مظاہرے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صدر ٹرمپ کی جانب سے القدس الشریف کو یہودی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانے کو چھ ماہ میں وہاں منتقلی کے اعلان پر ساری دُنیا میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے،اُن کے حامی اور دوست ممالک نے بھی اُن کے اِس اسرائیل نواز اعلان کی حمایت نہیں کی،فلسطینیوں کی اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں، دو فلسطینی شہید اور300 زخمی ہو گئے ہیں۔امریکہ، یورپ،ملائشیا اور انڈونیشیا میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں، تیونس میں امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کے پیشرو اوباما نے تو اپنے صدر کو ہٹلر قرار دے دیا ہے،پاکستان میں بھی مُلک گیر مظاہرے ہوئے ہیں اور مذمتی قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔وائٹ ہاؤس کے باہر بھی ایک بڑا مظاہر ہوا ہے اور امریکہ میں مقیم ہزاروں فلسطینیوں نے شدید سردی میں اِس جگہ نمازِ جمعہ ادا کی۔
اِس وقت جو صورتِ حال بنی ہے اس پر امریکہ نہ صرف تنہا رہ گیا ہے،بلکہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ خود امریکہ کے اندر صدر ٹرمپ کی حمایت بہت کم ہو گئی ہے۔امریکی شہری بھی اپنے صدر کے اِس اعلان کو پسند نہیں کر رہے،اپنے عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو یہ مضحکہ خیز اعلان کرنا پڑا کہ سفارت خانے کی منتقلی کو کئی برس لگ سکتے ہیں۔یہ بات اہم نہیں ہے کہ اِس کام میں چھ ماہ لگتے ہیں یا چھ برس،اصل اہمیت اِس امر کو حاصل ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے لئے یہ اعلان کر کے اپنی اسرائیل نوازی کو پوری طرح طشت ازبام کردیا ہے، خود اُن کے بقول کئی سابق امریکی صدور یہ فیصلہ کرنا چاہتے تھے،لیکن ردعمل کے خوف سے ایسا نہیں کر سکے، مشرقِ وسطیٰ میں امن و امان تو کئی عشروں سے خواب و خیال بنا ہوا ہے،لیکن یہ فیصلہ کر کے امریکہ نے دہکتے شعلوں کو ہَوا دے دی ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ بالآخر یہ احتجاج کیا رنگ اختیار کرتا ہے۔
امریکہ کا فرض تو یہی بنتا تھا کہ واحد عالمی سپر طاقت ہوتے ہوئے وہ مشرق وسطیٰ کے امن کی خاطر اُن فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کی کوئی سبیل نکالتا جو اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنا کر رکھ دیئے گئے ہیں،اسرائیل کا وجود سرا سر ناجائز تھا اور اس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ کے درجنوں عرب ممالک کے قلب میں ایک ایسا خنجر پیوست کرنا تھا، جس کے ذریعے مسلسل خون رِستا رہے۔فلسطینی صدیوں سے اِس سرزمین پر رہ رہے تھے اور اس کے جائز وارث تھے اُن کے مُلک کی شناخت ختم کر کے جن لوگوں کو آباد کیا گیا وہ یہاں کے باشندے نہیں تھے،اُنہیں دُنیا بھر سے لا لا کر فلسطین میں آباد کیا گیا، جن ممالک کے وہ اصل باشندے تھے انہوں نے اُنہیں خیر باد کہہ کر فلسطینیوں کے علاقے میں بطور غاصب سکونت اختیار کر لی ہے۔بیت المقدس اسرائیل کے ناجائز قیام کے وقت بھی اس کا حصہ نہیں تھا اِس پر قبضہ اسرائیل نے بیس برس بعد1967ء کی جنگ میں کیا۔
عالمی قانون کے مطابق بھی کوئی مُلک طاقت کے زور پر یا جنگ کے دوران قبضہ کر کے کسی مُلک یا اس کے کسی شہر کو اپنا حصہ نہیں بنا سکتا، جنگوں کے دوران جن علاقوں پر فوجیں قابض ہوتی ہیں وہ بعد میں اُنہیں خالی کرنا پڑتے ہیں، لیکن اسرائیل نہ صرف بیت المقدس سمیت بہت سے عرب علاقوں پر ناجائز طور پر قابض ہے،بلکہ سالہا سال سے اِس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ دُنیا کے وہ ممالک جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر کے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کر رکھے ہیں وہ اُنہیں بیت المقدس منتقل کر لیں، لیکن اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے کسی بھی مُلک نے اِس آگ سے کھیلنا پسند نہیں کیا،کوئی امریکی صدر بھی اِس کام پر تیار نہ ہوا، کیونکہ ان سب کو یہ بات معلوم تھی (اور اب بھی ہے) کہ جنگ کے ذریعے قبضہ کئے گئے علاقوں کو کوئی مُلک اپنا حصہ بنا ہی نہیں سکتا، چہ جائیکہ اسے دارالحکومت بنا دیا جائے۔

صدر ٹرمپ نے اپنی دانست میں جرأت مندی کا مظاہرہ کر تو دیا ہے،لیکن اس کا نتیجہ فوری طور پر امریکی تنہائی کی صورت میں نکلا ہے اور تو اور امریکہ کے اندر اُن کی ذہنی صحت پر شبہ کیا جا رہا ہے اور نوبت بہ اینجا رسید کہ وائٹ ہاؤس کو یہ اعلان کرنا پڑا ہے کہ وہ ذہنی طور پر تند رست ہیں اور چندماہ کے اندر اپنا طبی معائنہ بھی کرائیں گے،اُن کی ذہنی حالت اگر درست ہے تو بھی اُن کے فیصلے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اُنہیں عالمی امور کی باریکیوں اور نزاکتوں کا کوئی زیادہ ادراک نہیں ہے۔ اگر وہ سفارتی تقاضوں سے کما حقہ آگاہی رکھتے تو کبھی اس طرح کا عاقب نا اندیشانہ فیصلہ نہ کرتے، جس نے امریکہ کو عالمی برادری میں یکا و تنہا کر دیا ہے۔
صدر ٹرمپ اگر انصاف کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے اور اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطین کا ستر سال پرانا مسئلہ حل کرا دیتے تو اس سے نہ صرف فلسطینیوں کے زخم مندمل کرنے میں مدد ملتی،بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں روٹھا ہوا امن بھی واپس آ جاتا،لیکن صدر ٹرمپ نے اس کی بجائے ایک ایسا کام کر دیا جو حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جائیگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیل کے خود سر حکمرانوں کو آج تک فلسطین کی آزادی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکا،جو فلسطینی پورے علاقے کے مالک ہیں انہیں ایک محدود سی سرزمین پر بھی امن سے رہنے نہیں دیا جا رہا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس یہودی بستیاں مسلسل بسائی جا رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل فلسطین کی آزادی کو ماننے کے لئے تیار نہیں تو یہ توقع کیونکر کی جا سکتی ہے کہ عرب ممالک اور فلسطینی اسے امن کی ضمانت دیں جس کا وہ مطالبہ کرتا رہتا ہے۔صدر ٹرمپ کے فیصلے نے ایک بار پھر خرمن امن کو چنگاری دکھا دی ہے اس کا خمیازہ امنِ عالم کو نہ جانے کتنے عرصے تک بھگتنا پڑے گا۔

مزید :

اداریہ -