دوررس اثرات کا حامل فیصلہ
سپریم کورٹ کے ایک تین رُکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کررہے تھے عمران خان کو نااہل قرار دینے کی درخواست مسترد کرد ی ہے تاہم تحریک انصاف کے رُکن قومی اسمبلی اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62، ون (ایف) کے تحت تاحیات پارلیمانی سیاست کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ وہ اِن سائیڈر ٹریڈنگ کے مرتکب ہوئے۔ عدالت کے سامنے جھوٹ بولا اس لئے وہ صادق اور امین نہیں رہے، فاضل عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا کہ جہانگیر ترین کو قومی اسمبلی کی رُکنیت سے نااہل قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری کردے جس نے اس حکم پر عملدرآمد کردیا ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نااہلی سے بچ گئے ہیں، عدالت نے قرار دیا ہے کہ وہ نیازی سروسز لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور شیئر ہولڈر نہیں تھے۔ اس لئے اُنہیں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اس کمپنی کو ڈیکلیئر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، بنی گالہ کی جائیداد کے بارے میں فاضل عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ یہ انہوں نے فیملی کے لئے خریدی۔ تحریک انصاف کی جانب سے فارن فنڈنگ کے معاملہ کا جائزہ کے لئے عدالت نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ پارٹی کے پانچ سال کے حسابات کا جائزہ لے سکتا ہے۔
مقدمے کی سماعت طویل عرصے سے ہورہی تھی 405 روز تک 51 سماعتوں میں 101 گھنٹے طویل دلائل سنے گئے جو فریقین کے وکلا نے پیش کئے یہ درخواست مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے دائر کی تھی جس میں عمران خان اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی جو جزوی طور پر قبول ہوئی یعنی اول الذکر کو تو نااہل نہیں کیا گیا جبکہ موخرالذکر عمر بھر کے لئے نااہل قرار پاگئے، البتہ فارن فنڈنگ کا معاملہ بھی پارٹی کے مستقبل پر دوراس اثرات مرتب کرسکتا ہے، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کے نااہلی سے بچنے کے باوجود پارٹی پر فارن فنڈنگ کی تلوار ابھی لٹکتی رہے گی ۔ اس مفہوم کی ایک دوسری درخواست پہلے ہی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے اس فیصلے پر جو ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ اُسے امید تھی کہ جس طرح نواز شریف کو اپنے اقامے کی بنیاد پر قابلِ وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا ہے اسی طرح عمران خان کو بھی نااہل قرار دے دیا جائیگا، پیپلز پارٹی بھی یہی اُمید لگائے بیٹھی تھی اب جب کہ عمران خان نااہل قرار نہیں پائے تو مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ عدالت نے ایک ہی طرح کے مقدمے میں دوہرا معیار اپنایا ہے، عمران خان اگرچہ خود تو نااہلی سے بچ گئے ہیں لیکن جہانگیر ترین کی نااہلیت پارٹی کے لئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگی کیونکہ وہ صرف تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل ہی نہیں تھے بلکہ پارٹی کے اخراجات کا زیادہ تر بوجھ بھی انہی کے کاندھوں پر تھا، اسی لئے مسلم لیگی حلقے اُن پر عمران خان کی ’’اے ٹی ایم مشین‘‘ کی پھبتی بھی کسا کرتے تھے۔بلاول بھٹوزرداری نے فیصلے کے بعد یہ تبصرہ کیا کہ عمران خان کی اے ٹی ایم بند ہوگئی۔
نواز شریف کو تو اپنی موعودہ تنخواہ کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر صادق و امین نہیں سمجھا گیا تھا لیکن جہانگیر ترین کے معاملے میںیہ کینوس ذرا زیادہ وسیع ہوگیا ہے اور ان کی کاروباری زندگی کے بہت سے گوشے زیر بحث آگئے ہیں اِن سائیڈر ٹریڈنگ بھی اُن میں سے ایک ہے جس کی مختصر داستان یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملازمین کے نام پر ایک مِل کے حصص سستے داموں خریدلئے جو فروخت ہونے والی تھی چونکہ وہ یہ مل خریدنا چاہتے تھے اس لئے وہ جانتے تھے کہ اس کے حصص کی قیمتیں بڑھ جائیں گی چنانچہ اُنہوں نے بعد میں مل خریدی اور یہ حصص مہنگے داموں فروخت کرکے بھاری منافع کمایا، اندر کا آدمی ہونے کی وجہ سے اس طرح کی معلومات کی بنیاد پر منافع کمانا قانون کی نظر میں روا نہیں اس لئے اُن کو منافع کی رقم کے برابر جرمانہ بھی کیا گیا تھا جو اُنہوں نے ادا کیا، اب یہ بات بھی اُن کی نااہلی کی ایک وجہ بنی۔
عدالت کے اس فیصلے کے بعد ارکان اسمبلی کی سیاسی زندگی کے بہت سے خفیہ گوشے زیر بحث آنا اب ممکن ہوگیا ہے اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ فیصلہ اب سیاستدانوں کی زندگی کو زیادہ متاثر کرے گا اور سیاسی زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اُن کا طرز بودوباش اور کاربار عدالتوں میں زیربحث آسکتا ہے اور ان کے کنڈکٹ کی بنیاد پر عدالتوں سے اُن کے خلاف فیصلے بھی آسکتے ہیں اس لئے اس فیصلے کے اندر سیاست دانوں کے لئے سوچ بچار کے بہت سے مقامات ہیں اور جو لوگ بزعمِ خویش اپنے آپ کو پارسا سمجھتے ہیں یا پھر اس فخر سے سرشار ہوتے ہیں کہ وہ تو بڑے کامیاب بزنس مین ہیں اور بھاری ٹیکس گزار بھی ہیں اس لئے اُن کی زندگی کے بعض تاریک یا کم روشن پہلوؤں کی جانب کسی کی نظر نہیں جائیگی انہیں بھی اب محتاط ہونا ہوگا۔ عوامی نمائندے کی پبلک لائف کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جو بظاہر قانون کی نظر میں پسندیدہ نہ ہو، اب کوئی بھی سیاسی مخالف کسی بھی سیاستدان کے ایسے معاملات جن کی بنیاد پر جہانگیر ترین نااہل ہوئے ہیں اعلیٰ عدالتوں میں لے کر جاسکتا ہے اور اِن کی بنیاد پر فیصلے صادر ہوسکتے ہیں زیر تبصرہ فیصلے میں جو امور طے کردئے گئے ہیں اب عدالتی فیصلوں میں اُنہیں پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
قانونی حلقوں میں اب اس سوال پر بھی بحث کی جا رہی ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں پارلیمینٹرینز کی اہلیت اور نااہلیت کے فیصلے اعلیٰ عدالتوں ہی میں ہوں گے؟ پارلیمنٹ کو ملک کا سپریم ادارہ کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کے ارکان میں بھی اپنی ایک انفرادیت ہونی چاہئے۔ آئین کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت کا فیصلہ کرسکتا ہے، لیکن اب یہ اختیار اعلیٰ عدالتیں استعمال کرنے لگی ہیں تو یہ بات بھی لازماً زیر بحث آئے گی کہ ایک ہی طرح کی صورت حال میں ایک رکن کو اہلیت کا سرٹیفکیٹ دے دینا اور دوسرے کو نااہل قرار دے دینا کیا قانون کا درست اطلاق ہے یا اس میں کوئی رخنہ موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے تو اس کام کاآغاز بھی کر دیا ہے یہ سلسلہ اب آگے بڑھتا رہے گا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ اپنے ارکان کی اہلیت و نااہلیت کے معاملے پر ازسرنو غور کرے اور دیکھے کہ کیا بدلے ہوئے حالات میں اس کا کوئی کردار ہے یا پھر آئندہ ارکان اسمبلی کی اہلیت کے فیصلے عدالتوں میں ہی ہوں گے، اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں اس قسم کے مقدمات کی بھرمار ہو جائیگی جن کا تعلق پارلیمنٹ یا ارکان پارلیمنٹ کی نا اہلی سے ہوگا۔ پہلے ہی ایسے بہت سے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں جا رہے ہیں، جو فیصلے پارلیمنٹ کو کرنے چاہئیں اگر وہ اس سلسلے میں اپنا کردار کماحقہ ادا نہیں کرے گی اور کوئی خلا محسوس ہوگا تو اس خلا کو عدالتیں ہی پر کریں گی۔ اس لئے وقت کی آواز یہی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اپنے اور اپنے ادارے کے وقار کی خاطر اپنا ایک صاف شفاف کردار سامنے لائیں تاکہ ان پر ہر وقت نااہلیت کی تلوار نہ لٹکتی رہے۔