قومی اتحاد کا عظیم الشان مظاہرہ
پشاور میں ہماری تاریخ کی بدترین دہشت گردی نے جہاں قوم کو خون کے آنسو رلا دیا، وہاں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے اس کے عزم کو بھی نئی بلندیاں نصیب ہو گئیں۔ شر میں سے خیر برآمد ہوا کہ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں یک آواز ہو گئیں۔ وزیراعظم نوازشریف اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے پشاور روانہ ہوئے، تاکہ زخموں پر ذاتی طور پر مرہم رکھیں اور آئندہ کے لائحہ عمل کو طے کرنے کے لئے وسیع تر مشاورت کا اہتمام کریں۔ وزیراعظم8 نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا تو کسی بھی شخص نے انکار میں سر نہیں ہلایا۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بھی بنفس نفیس شرکت کا فیصلہ کیا اور چند گھنٹوں کے صلاح مشورے کے بعد مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کر دیا گیا۔ وزیراعظم نوازشریف پریس کانفرنس سے خطاب کرنے بیٹھے تو ان کے بائیں عمران خان بھی موجود تھے۔ سیاسی رہنماؤں نے یک جہتی کا مطاہرہ کرکے قوم کو ایک نئے اعتماد اور اعتبار سے سرشار کر دیا تھا۔ واضح کر دیا گیا کہ تمام دہشت گردوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا۔ ان میں سے کوئی اچھا اور کوئی بُرا نہیں سمجھا جائیگا جو بھی بندوق اٹھا کر اپنی مرضی مسلط کرنے کے درپے ہوگا، پاکستان کے دستور اور نظمِ اجتماعی کو نشانہ بنائے گا، اس کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ایک عرصہ تک پاکستانی معاشرے میں دہشت گردی کی تعریف اوردہشت گردوں کے عزائم کے حوالے سے بحث و تمحیص جاری رہی ہے، افغانستان پر امریکی اور نیٹو افواج کے حملے کے بعد حالات میں جو پیچیدگی پیدا ہوئی اور وہاں اقتدار سے زبردستی الگ کئے جانے والے طالبان نے حالات کو شکست دینے کے لئے جس جدوجہد کا آغاز کیا، اس کے اثرات پاکستان میں بھی پہنچے اور یہاں افغانستان میں جاری مسلح جدوجہد کے خلاف رائے عامہ منظم نہیں ہو سکی۔ افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت کو اہل پاکستان کی بھاری تعداد مناسب نہیں سمجھتی تھی، لیکن جب افغان طالبان کا نام لے کر بعض پاکستانی عناصر نے بھی یہ بہروپ بھرا اور پاکستان کے اداروں اور لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو خیالات میں تبدیلی کا آغاز ہوگیا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معصوم بچوں کو باقاعدہ منصوبہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بچوں کے خلاف اس طرح کی گھناؤنی واردات کا تصور بھی کوئی انسان نہیں کر سکتا۔ اسلام نے تو جنگ کے دوران بھی دشمن کے بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی، چہ جائیکہ مسلمان کہلانے والے مسلمان قوم کے فرزندوں ہی کا خون بہا گزریں۔ اس تازہ ترین واردات نے ہر طرح کے ابہام کو ختم کر دیا ہے اور پوری قوم یک آواز اور یک جہت ہے کہ کسی بھی بندوق بردار کو بندوق کے بل پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیراعظم نے تمام سیاسی قیادت کی طرف سے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہر دہشت گرد کی سرکوبی ہوگی اور اس عفریت کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔وزیرداخلہ کے زیر قیادت ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے، جس میں مختلف جماعتوں کے نمائندے شریک ہوں گے اور آئندہ سات روز کے اندر ایک واضح نقشہ کار مرتب کریں گے۔ وزیر اعظم پاکستان نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ 2008ء سے سزائے موت پر لگائی جانے والی (غیر اعلانیہ) پابندی کو ختم کردیا گیا ہے۔ ایسے دہشت گرد جنہیں عدالت سے موت کی سزا دی جا چکی ہے، اور ان کی اپیلیں بھی خارج ہو گئی ہیں، فوری طور پر انہیں پھانسی دے دی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ یورپی یونین کے دباؤ کے تحت موت کی سزا پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔ 2008ء کے بعد سے اب تک آٹھ ہزار سے زائد وہ اشخاص جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہیں، ابھی تک جیلوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے دہشت گردوں کی تعداد چند سو بیان کی جا رہی ہے۔ اس فیصلے کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا گیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سے حالات کو بہتر بنانے میں کچھ مدد ضرور ملے گی۔ بعض اطلاعات کے مطابق یورپی یونین کے بعض حلقوں نے اس پر ناپسندیدیگی کا اظہار بھی کیا ہے، لیکن پاکستان کے معروضی حالات میں اس ناراضگی کو کوئی وزن نہیں دیا جا سکتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ یورپی یونین نے بنگلہ دیش کو بھی تجارتی مراعات دے رکھی ہیں، لیکن وہاں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو پھانسیوں پر لٹکاتی چلی جا رہی ہے اس کا ہاتھ یورپی یونین کے کسی ذمہ دار نے پکڑنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔۔۔ بہر حال نتیجہ جو بھی ہو! اہلِ پاکستان کے لئے بنیادی اہمیت جان کی حفاظت کی ہے، باقی ہر معاملہ تو بعد میں آتا ہے۔ عمران خان نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے ان کا قد (اخلاقی طور پر) اونچا کیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت ان کے اس جذبۂ مفاہمت کی قدر کرے گی، اور ان سے مذاکرات کو نتیجہ خیز اور با معنی بنایا جائے گا۔ جماعتی یا سیاسی مفادات کسی بھی طور قومی مفادات پر مقدم نہیں ہو سکتے، یہ وہ بنیادی نکتہ ہے کہ جسے اہل سیاست کو بہر طور اچھی طرح سمجھ اور یاد کر لینا چاہئے۔