محمود اچکزئی کی بے محل اور بے وقت تجویز

محمود اچکزئی کی بے محل اور بے وقت تجویز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہئے، مسئلہ کشمیر کا حل اس کی آزادی ہے بھارت اور پاکستان کو اِس مسئلے پر نئی راہ اپناتے اور اختراع کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کر دینا چاہے۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان جھگڑے کی جڑ ہے،دونوں حصوں میں بٹے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی بات سے پاکستان دُنیا کو بتا سکے گا کہ وہ مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔ہم کشمیر کے مسئلے پر ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر امن نہیں ہو گا تو ہم سی پیک نہیں بنا سکیں گے،ہمیں افغانستان،ایران اور بھارت سے امن قائم کرنا ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اگر اخلاص سے کام کرے تو افغانستان کے60فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ محمود اچکزئی نے یہ باتیں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیں۔


محمود اچکزئی کو نئی نئی تجویزیں پیش کرنے کا بہت شوق ہے،کبھی وہ افغانستان کے بارے میں ایسی باتیں کر دیتے ہیں جن کا پاکستان کی قومی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اب انہوں نے کشمیر کو ’’آزاد‘‘ کرنے کی جو تجویز بیٹھے بٹھائے پیش کر دی ہے وہ آزادئ کشمیر کی تحریک کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، جو اِس وقت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور بھارت مجبور ہو رہا ہے کہ وہ مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالے،بھارتی حکمران اِس وقت سکم کے معاملے پر چین سے بھی اُلجھے ہوئے ہیں اور چین کے علاقے میں اپنی فوجیں داخل کر کے چین کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔اِس صورتِ حال میں بھارتی فوج کے سربراہ نے یہ بڑ بھی ہانک دی تھی کہ بھارت بیک وقت پاکستان اور چین سے جنگ لڑ سکتا ہے،حالانکہ چین نے نہ تو بھارت کو جنگ کی کوئی دھمکی دی نہ ہی چین کے کسی مُلک کے خلاف جارحانہ عزائم ہیں یہ تو بھارت ہے جو چین کو اشتعال دِلاتا رہتا ہے، کبھی سکم میں اپنی فوج داخل کرتا ہے اور کبھی یہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ آزاد کشمیر میں چینی فوجیں موجود ہیں، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں حالت یہ ہو گئی ہے کہ جو بھارتی فوج چین اور بھارت سے بیک وقت مقابلے کے دعوے کر رہی ہے اس کا نصف سے زیادہ حصہ تو مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہے جو نہتے کشمیری نوجوانوں کے پتھروں کا مقابلہ بھی نہیں کر پا رہا،ایسے میں محمود خان اچکزئی کی کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز کو بے وقت کی راگنی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔


کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر متنازعہ علاقے کے طور پر موجود ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام نے استصوابِ رائے(ریفرنڈم) کے ذریعے کرنا ہے،جس کا بھارت نے خود اقوام متحدہ سے وعدہ کیا ہوا ہے اور آج تک اِس پر عمل نہیں کیا گیا۔اگر ریفرنڈم ہو تو کشمیریوں کی رائے کھل کر سامنے آ جائے گی،لیکن بھارت کو خوف ہے جو کشمیری عوام کرفیو کی پابندیوں کے درمیان ہزاروں کی تعداد میں جنازوں کے جلوس میں شرکت کرتے، اپنے شہدا کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے اور بھارت کے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیں گے اس خوف کی وجہ سے بھارت حیلوں بہانوں سے ریفرنڈم کو ٹالتا چلا آ رہا ہے۔ ایسے میں محمود خان اچکزئی کی تجویز ڈوبتے ہوئے بھارت کے لئے تنکے کا سہارا ثابت ہو سکتی ہے، بھارت متنازعہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اگر محمود اچکزئی کی تجویز کے مطابق پاکستان یکطرفہ طور پر پہل کر کے کشمیر کو ’’آزاد‘‘ کر دیتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ خوشی بھارت میں منائی جائے گی، جو تمام تر ظلم و ستم کے باوجود کشمیر میں اپنی رٹ قائم نہیں کر سکا اب اگر محمود اچکزئی جیسے پاکستانیوں کی جانب سے ہی ایسی تجویزیں آئیں گی تو بھارت انہیں لے اُڑے گا اور یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دے گا کہ پاکستان میں ایسے سیاست دان موجود ہیں جو کشمیر سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
یہ تجویز ان کشمیریوں کے لئے بھی بہت پریشانی کا باعث ہو گی، جو جان ہتھیلی پر رکھ کر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور نوجوان بے دھڑک ہو کر شہادتیں پیش کر رہے ہیں ایسے میں اچکزئی کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے اپنی جانب سے ایک ’’انقلابی‘‘ تجویز پیش کر دی حالانکہ دیکھا جائے تو یہ تجویز کسی لحاظ سے بھی نئی نہیں ہے، بس محمود اچکزئی نے پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے کی رسم نبھا دی ہے، کیونکہ کشمیر میں بھی ایک مختصر سا طبقہ چاہتا ہے کشمیر نہ تو پاکستان اور نہ ہی بھارت کا حصہ بنے،بلکہ آزاد مملکت کے طور پر دُنیا کے نقشے پر اُبھرے، کئی اور حلقے اسے سوئٹزر لینڈ کی طرح کا آزاد مُلک بنانے کے بھی خواہاں ہیں، کشمیر کے بعض سیاست دان بھی جنہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ایسی تجاویز پیش کرتے رہے ہیں،لیکن عوام نے اس کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی،وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے اور اصولی بات بھی یہی ہے کہ فیصلہ کشمیریوں نے ہی کرنا ہے بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُنہیں یہ فیصلہ آزاد مرضی سے کرنے دیا جائے،اِس مرحلے پر کشمیریوں کی توجہ کسی ایسی تجویز کی جانب مبذول کرانا جیسی تجویز اچکزئی نے پیش کی ہے،قطعی نامناسب ہے ایسی تجویز سے کشمیریوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور خود بھارت کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے گا اِس لئے قومی اسمبلی کے ایک رکن کو جن کے بھائی بلوچستان کے گورنر بھی ہیں اور اپنے آپ کو وفاق کی حکمران جماعت کا اتحادی بھی کہتے ہیں، ایسی تجویز سے گریز کرنا چاہئے تھا لیکن ’’چادر والی سرکار‘‘ اپنی دانست میں ایسی تجاویز پیش کر کے شاید عالمی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں خود بھارت بھی ایسی کسی تجویز کو پذیرائی نہیں بخشے گا اِس لئے یکطرفہ طور پر اس تجویز کو پیش کرنے سے صرف کمزوری ہی ظاہر ہوتی ہے۔ حکومت کو یہ تجویز سختی سے رد کر دینی چاہئے۔

مزید :

اداریہ -