امریکہ میں ٹرمپ عہد کا آغاز

امریکہ میں ٹرمپ عہد کا آغاز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈونلڈ ٹرمپ آج امریکہ کے 45ویں صدر کا منصب سنبھال رہے ہیں، امریکی سیاسی تاریخ میں کامیاب صدر بھی گزرے اور ناکام بھی، ایسے بھی تھے جو صرف ایک ٹرم(چار سال) کے لئے صدر منتخب ہو سکے اور امریکی ووٹروں نے انہیں دوسری مرتبہ عہدے کا اہل قرار نہ دیا امریکہ میں عام طور پر ناکام صدور بھی اپنی ٹرم پوری کر لیتے ہیں امریکہ سپر پاور ہے اس لحاظ سے وہ محض اپنے ملک کا صدر ہی نہیں ہوتا بالواسطہ طور پر اس کی حکمرانی یا اثر ورسوخ کسی نہ کسی انداز میں ہر خطے میں ہوتا ہے، امریکہ جب چاہے حکومتوں کی تبدیلی کے لئے ملکوں پر حملے بھی کردیتا ہے اور اپنے حامی ممالک کو بھی ساتھ ملالیتا ہے، ایسا اگرچہ جمہوریت اور دنیا کے امن و امان کے نام پر کیا جاتا ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ جن ملکوں کے حالات بہتر کرنے کا دعویٰ کیا گیا وہ پہلے سے زیادہ خراب ہوگئے جیسے کہ عراق اور شام میں ہوا، افغانستان میں بھی امریکہ نے تباہی و بربادی تو بے حدوحساب پھیلادی لیکن افغانوں کو اپنے ڈھب پر نہیں لاسکا آج بھی افغانستان امن و استحکام سے بہت دور ہے اور امریکہ اس کا ذمہ دار کبھی ایک ملک کو قرار دیتا ہے اور کبھی دوسرے کو، دوستوں اور دشمنوں کو امریکہ سے یکساں شکایات رہتی ہیں۔
امریکی جمہوریت میں صدر کے اختیارات اگرچہ لامحدود تو نہیں ہیں تاہم بہت وسیع ہیں، صدر، کانگرس کے منظور کئے ہوئے بل کو ویٹو کرسکتا ہے البتہ چیک اینڈ بیلنس کے لئے کانگرس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ صدر کا مسترد کیا ہوا بل دوبارہ دوتہائی اکثریت سے منظور کرکے صدر کو بھیج دے ایسی صورت میں صدر کے پاس منظوری کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا جیسا نائن الیون حملوں کے سلسلے میں امریکی شہریوں کو سعودی حکومت کے خلاف عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے کے سلسلے میں بنائے جانے والے قانون کے سلسلے میں ہوا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام تر اختیارات کے باوجود امریکی صدر کانگرس کا محتاج رہتا ہے اور بہت سے بل ایسے ہوتے ہیں جنہیں منظور کرانے میں صدر کی پارٹی کو خاصی محنت کرنی پڑتی ہے، جیسا کہ صدر اوباما کے ساتھ ہیلتھ کیئر بل کی منظوری کے سلسلے میں ہوا، اسی طرح ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل کی منظوری حاصل کرنے میں صدر اوباما کو مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔
امریکہ میں جمہوریت دو بڑی جماعتوں کی مرہونِ منت ہے، صدر کا تعلق ان دو میں سے کسی ایک جماعت سے ہوتا ہے، البتہ استثنائی صورتو ں میں ایسے صدور بھی ہو گزرے ہیں جن کا تعلق ان دونوں جماعتوں سے نہیں تھا، امریکی صدر کو منتخب ہونے کے لئے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے، پہلے تو پارٹی نامزدگی کے مراحل ہی اتنے طویل ہوتے ہیں کہ کئی ماہ کا عرصہ لے جاتے ہیں، پارٹی کے اندر بہت سے امیدواروں میں مقابلہ ہوتا ہے، پرائمری کے مراحل سر کرنے والے امید وارکو پارٹی نامزدگی حاصل ہو جاتی ہے۔ نامزدگی کے مراحل کی ابتدا میں ہی ناکام ہونے والے امیدوار دستبردار بھی ہو جاتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان تمام مرحلوں سے گزرے، شروع شروع میں تو جب ان کا نام سامنے آیا تو امریکیوں نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا، اس کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں سب سے نمایاں وجہ یہ تھی کہ وہ اس سے پہلے کبھی کسی سیاسی عہدے پر فائز نہیں رہے، عام طور پر صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا اپنا یا ان کے خاندان کا طویل سیاسی پس منظر ہو، وہ کسی ریاست کے گورنر یا کانگرس کے رکن رہ چکے ہوتے ہیں یا پھر فوج کی قیادت کر چکے ہوتے ہیں یا کسی نہ کسی وزارتی منصب پر ذمے داریاں سر انجام دے چکے ہوتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں ایسی کوئی صورت نہ تھی، انہوں نے اس سے پہلے کبھی کانگرس یا کوئی الیکشن بھی نہیں لڑا، سیاست میں بھی سرگرم عمل نہیں رہے، سیدھے صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں کود پڑے تو یہ سمجھا گیا کہ وہ سنجیدہ امیدوار نہیں ہیں، ان کا انداز گفتگو، سوچ کا محور،سیاسی نقطہ نظر وغیرہ ہر چیز روایتی سیاستدانوں سے مختلف تھی، وہ مخالفین کا مضحکہ بھی اڑاتے تھے یہاں تک کہ اپنی پارٹی قیادت کے بارے میں بھی جو منہ میں آتا تھا کہہ دیتے تھے، اس لئے یہی سمجھا گیا کہ وہ کسی نہ کسی مرحلے پر صدارتی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ امریکیوں میں ’’زیر بحث‘‘ آنے لگے، پھر ایسے حلقے بھی پیدا ہوگئے جن میں وہ مقبول تھے، انتخابی مہم جوں جوں آگے بڑھنے لگی وہ کہیں نہ کہیں سرپر ائز دینے لگے یہاں تک کہ وہ پرائمریاں جیت گئے تب بھی یہی کہا گیا کہ پارٹی قیادت انہیں امیدوار نامزد کرنے کا رسک نہیں لے گی کیونکہ ان کی جیت کے امکانات کم ہیں لیکن بہر حال انہیں ری پبلکن امیدوار نامزد کر دیا گیا۔ ان کا مقابلہ ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن نے کیا۔
صدارتی مہم کے دوران بلکہ اس کے اختتام تک تمام تجزئیے اور جائزے اس بات پر متفق تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہار جائیں گے الیکشن والے دن بھی یہی رائے تھی اور اس پر اتنی یکسوئی تھی کہ عالمی جریدے ’’نیوز ویک‘‘نے ہیلری کلنٹن کی کامیابی کا ٹائٹل چھاپ کر مارکیٹ میں بھیج دیا، لیکن ایسی امریکی ریاستوں میں جن کا ووٹ ہیلری کلنٹن کو ملنے کی قوی امید تھی ٹرمپ جیت گئے تو پانسہ ہی پلٹ گیا اور پوری دنیا حیران و ششدر رہ گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر امریکہ کے طول و عرص میں ان کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے، ان کے خلاف طرح طرح کے سکینڈل بھی سامنے آئے اور اب تک ان کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری ہے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ روس نے امریکی الیکشن ہیک کئے اور ٹرمپ کے حق میں کردار ادا کیا، سی آئی اے اس رپورٹ کی تصدیق کرتی ہے لیکن ٹرمپ اپنے ملک کے اس انتہائی با اثر ادارے کا مضحکہ اڑانے سے گریز نہیں کرتے، یہاں تک کہ جب ’’ٹرانزٹ‘‘ کے عرصے میں انہیں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں بریفنگ کے لئے بلایا تو وہ نہیں گئے اور کہا کہ انہیں کسی بریفنگ وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں انہیں سب کچھ معلوم ہے اگر کسی وقت وہ ضرورت محسوس کریں گے تو بریفنگ لے لیں گے، سی آئی اے کے سربراہ نے انتہائی سخت الفاظ میں ٹرمپ کو محتاط رہنے کا مشورہ بھی دیا لیکن وہ اب تک تو اس پر عمل کرتے نظر نہیں آتے، آج عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کا انداز فکر و نظر بدلتا ہے یا نہیں یہ بات بھی جلد سامنے آ جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم اور منتخب ہونے کے بعد امریکہ اور دنیا کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ان پر لے دے ہوتی رہی ہے،جو ٹیم انہوں نے اپنی حکومت چلانے کے لئے منتخب کی ہے اس کے بارے میں بھی امریکیوں کے تحفظات ہیں، خوف کی ایک فضا بھی پورے امریکہ میں موجود ہے اور جولوگ غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے ہیں ان کے خدشات تو بہت زیادہ ہیں میکسیکو کی سرحد پر غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لئے وہ دیوار تعمیر کرنے کی بات اب تک کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دیوار امریکہ تعمیر کرے گا اور خرچہ میکسیکوسے وصول کیا جائے گا، اسرائیل ہمیشہ سے امریکہ کا لاڈلہ بچہ رہا ہے لیکن ٹرمپ اسرائیل نوازی میں دو چار ہاتھ آگے ہی بڑھ گئے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کا حکم نہ دیدیں حال ہی میں سلامتی کونسل نے اسرائیل کو غیر قانونی یہودی بستیاں بسانے سے روکنے کا جو حکم دیا تھا ٹرمپ اس قرارداد کی منظوری پر برہم تھے جبکہ صدر اوباما اور جان کیری اس قرار داد کا بھرپور دفاع کرتے رہے، اوباما اور کیری کی کوشش تھی کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم کردی جائے یہی مشرقِ وسطیٰ میں امن کا راستہ ہے لیکن اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے امریکی حکومت کو کامیابی نہیں ہوئی، نیتن یاہو صدر اوباما سے ایران نیو کلیئر ڈیل کی وجہ سے بھی سخت ناراض تھے۔ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس ڈیل کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ روس کے ساتھ تعلقات بھی بہتر کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنا وزیر خارجہ ایک ایسی کاروباری شخصیت کو نامزد کیا ہے جن کی کمپنی (ایکسون) روس کے ساتھ تجارتی مفادات رکھتی ہے اور جن کے صدر پیوٹن سے ذاتی تعلقات بھی ہیں، خدشات اور امیدویاس کی اس فضا میں امریکہ میں ٹرمپ عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں ٹرمپ پر لگی ہوئی ہیں۔

مزید :

اداریہ -