آلودہ پانی سے شہریوں کی صحت کولاحق خطرات میں اضافہ

آلودہ پانی سے شہریوں کی صحت کولاحق خطرات میں اضافہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سرکاری محکموں کے ذمہ دار ملازمین کی غفلت، لاپروائی اور بے حسی کے باعث لوگ انتہائی مضر صحت پانی پینے پر مجبور اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں میں آلودہ اور صحت کے لئے نقصان دہ پانی کی سپلائی کی ایک سے زیادہ وجوہ بتائی جاتی ہیں، مثلاً زیر زمین پائپ لائنیں بوسیدہ ہو چکی ہیں، نئی پائپ لائنیں بچھانے کا کام نہیں ہُوا۔ بدقسمتی سے سیوریج پائپ بھی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں اور اُن کی حالت بھی بوسیدہ ہونے سے گندہ پانی مسلسل رستا رہتا ہے۔حکومت کی طرف سے مختلف شہروں میں واٹر فلٹرپلانٹ لگانے کی زحمت تو کی گئی،لیکن ان پلانٹس کی تعداد بہت کم ہے، ان کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام باقاعدگی سے نہیں ہوتا۔کراچی میں شہریوں کو روزانہ 650ملین گیلن پانی سرکاری طور پر مہیا کیا جاتا ہے۔ کے ڈی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ450 ملین گیلن پانی کی فلٹریشن ہوتی ہے، لیکن بقیہ200ملین گیلن آلودہ پانی صاف کرنے کا کوئی بندوبست نہیں اور یہی گندہ پانی فلٹر شدہ450 ملین گیلن پانی کو دوبارہ آلودہ کرتا رہتا ہے۔ لاہور میں بھی یہی حالت ہے۔ بیس فیصد فلٹر پلانٹ لگائے گئے ہیں اور ہر سال ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں سرکاری اورنجی طور پر بمشکل 20 سے 30 فیصد فلٹر پلانٹس لگائے جاتے ہیں، جبکہ پہلے سے نصب کئے گئے پلانٹس کی دیکھ بھال نہ ہونے سے شہریوں کو صاف پانی نہیں ملتا۔ یہی حال دیگر شہروں کا بھی ہے بعض شہروں میں سیوریج سے آلودہ پانی کے علاوہ زیر زمین سیم زدہ اور کھارا پانی ملتا ہے ۔تقریباً اٹھارہ بیس سال سے منرل واٹر کے نام پر مہنگے داموں پانی مہیا کرنے کا سلسلہ جاری ہے، لیکن صورت حال افسوسناک ہے۔ حال ہی میں ایک بار پھر اِن کمپنیوں کے پانی کی ٹیسٹنگ رپورٹ منظر عام پر آئی ہے، 47کمپنیوں کے سیمپلز میں سے27سیمپلز کو مضر صحت قرار دیا گیا۔ بیشتر شہری پیپاٹائٹس کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ حکومت ہیپاٹائٹس کے علاج کی کچھ سہولتیں مہیا کر رہی ہے،لیکن مہنگے ٹیسٹ اور قیمتی ادویات کی فراہمی پر زیادہ توجہ نہ دینے سے پرانے مریضوں کو بہت کم فائدہ ہوتا ہے، جبکہ نئے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عالمی تنظیموں کے تعاون سے جامع پیکیج تیار کر کے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں ۔

مزید :

اداریہ -