کنٹرول لائن پر بھارت کی اشتعال انگیزیاں
کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ اور بے گناہ شہریوں کی شہادتوں کے معاملے پر پاک بھارت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز(ڈی جی ایم اوز) کا ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا جس میں بھار ت کو خدشات سے آگاہ کیا گیا یہ رابطہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا پاکستان کے ڈی جی ایم او نے بھارتی فوج کو نیزہ پیر، چری کوٹ اور بٹل سیکٹر میں حال ہی میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے سے متعلق آگاہ کیا، بھارت کو بتایا گیا کہ نہتے شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے بھارتی فوج کا یہ عمل غیر اخلاقی اور غیر پیشہ وارانہ ہے بھارت کی اس اشتعال انگیزی سے نہ صرف بے گناہ پاکستانی شہریوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ یہ انتہائی خطرناک بھی ہے اور اس کا ناقابل برداشت ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں امن کے لئے خطرہ ہیں اور بھارت کو جارحیت کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر کی کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ اب خاصا پرانا ہو چکا ہے اور یہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس کا آغاز 2014ء کے لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے ہواتھا اس وقت ابھی کانگرس کی حکومت تھی اور بی جے پی سمیت دونوں جماعتیں اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے تھیں اور زبانی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن کا محاذ بھی گرم کر رکھا تھا اس کا مقصد بظاہر تو یہی تھا کہ پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دیکر ووٹ حاصل کئے جائیں، نریندر مودی نے تو اپنی انتخابی مہم ہی اس انداز میں مرتب کی تھی کہ پاکستان کے خلاف اپنے لوگوں کا منفی رویہ ابھارکر ووٹ حاصل کرنے ہیں مودی اس میں کامیاب بھی رہے لیکن اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کے ریاستی انتخابات کے موقعہ پر یہ فارمولا کام نہ آیا اور مودی نے 1+44کا جو فارمولا بنایا تھا وہ ہوا میں اڑ گیا اور مفتی محمد سعید مرحوم کی جماعت نے سب سے بڑی جماعت کا اعزاز حاصل کر لیا، مودی کے فارمولے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے تحت کسی ہندو کو ریاست کا وزیر اعلیٰ بنوایا جائے لیکن اس میں بھی انہیں کامیابی نہ ہوئی البتہ اب انہیں کشمیر میں آزادی کی جس تند خو لہر کا سامنا ہے وہ اس سے خوفزدہ ہو کر کنٹرول لائن پر مسلسل اشتعال انگیزیاں کر رہے ہیں اور کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے اس فائرنگ سے ان دیہات کے بے گناہ شہری متاثر ہو رہے ہیں جو کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ واقع ہیں ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ میں ان ہی بے گناہ شہریوں کا معاملہ زیادہ اٹھایا گیا ہے یہ لوگ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک بھارت کی جانب سے کوئی گولی آ کر ان کی موت کا سامان کر دیتی ہے یہ لوگ مسلسل خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی فصلوں پر بھی توجہ نہیں دے پاتے، انہیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے بے گناہوں کے خلاف یہ کارروائیاں غیر اخلاقی اور غیر پیشہ وارانہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت آخر کیوں ایسا کر رہا ہے، بظاہر تو اس کی وجہ یہ لگتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سات آٹھ لاکھ فوج تعینات ہے ۔ اس کے باوجود نہتے کشمیریوں کی جنگ آزادی جاری ہے، اب تو مقبوضہ کشمیر کے رہنما بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے ہاتھ سے کشمیر نکل رہا ہے اس لئے اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کرنا چاہئے لیکن بھارتی قیادت اس معاملے میں کوئی پیش رفت کرنے پر آمادہ ہی نظر نہیں آتی اور اپنی بے چین جنتا کو کبھی سرجیکل سٹرائیک کی کہانیوں سے بہلایا جاتا ہے اور کبھی کولڈ ڈاکٹرئن کا خواب دکھا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کا یہ سلسلہ اگر یونہی بڑھتا رہا تو خطے کا امن تہہ و بالا ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے پہلے ہی دہشتگرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اس کا بہترین حل تو یہی تھا کہ خطے کے تمام ممالک مل کر اس کا مقابلہ کرتے لیکن بھارت نے جو حالات پیدا کر رکھے ہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی مشترکہ اقدام کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا، مزید برآں افغانستان میں امریکہ بھارت کا جو وسیع تر کردار دیکھنا چاہتا ہے اس کے پردے میں بھارت نے افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشتگردی کا سلسلہ تیز تر کر رکھا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان میں دہشتگردی کی جو کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں ’’را‘‘ اور این ڈی ایس ملوث ہیں۔
بھارت نے نہ صرف کنٹرول لائن پر محاذ گرم رکھا ہوا ہے بلکہ سی پیک کے راستے میں روڑے اٹکانے کے لئے بھی خصوصی طور پر متحرک ہے اور بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں اس سلسلے کی کڑی ہیں حالانکہ اگر بھارتی رہنماؤں کی سوچ مثبت ہوتی تو وہ چین کی فراخ دلانہ پیش کش سے فائد ہ اٹھا کر خود اس منصوبے سے مستفید ہوتے لیکن بھارت نے نہ صرف خود سی پیک کی مخالفت کی بلکہ امریکہ کو بھی اس کی مخالفت پر آمادہ کیا جس نے بھارتی سوچ کو اپناتے ہوئے سی پیک کے خلاف بیان داغ دیا اب بھی بھارت کے لئے موقعہ ہے کہ وہ منفی سوچ کو خیرباد کہہ کر مثبت طرز عمل اپنائے اور جنگ جویانہ سوچ کو خیر باد کہہ کر امن کے راستے پر چلے، اگر خطے میں امن قائم ہوتا ہے تو یہ اربوں لوگوں کے لئے بہت ہی اچھی خبر ہو گی کیونکہ جو وسائل اسلحے کی خریداری پر صرف ہو رہے ہیں ان کا رخ غربت و جہالت کی تاریکیا ں دور کرنے کی جانب موڑا جا سکے گا، بھارت کے ممبئی جیسے روشنیوں کے شہر میں آج بھی کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گذارتے ہیں لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر پوری زندگی گذار دیتے ہیں اور انہیں رہنے کے لئے چھت نہیں ملتی، کسی بھارتی رہنما نے ان لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا کبھی تصور تک نہیں کیا، اگر انہیں اسلحے کے انبار جمع کرنے سے فرصت ملے تو وہ اس طرف توجہ دیں اس وقت تو بھارت اس خبط میں مبتلا ہے کہ دنیا میں جہاں سے بھی ملے جدید ترین اسلحہ خرید کر اپنے ذخیروں میں جمع کر لے اس مقصد کے لئے وہ امریکہ، فرانس اور دوسرے ملکوں سے جدید اسلحے کے سودے کر رہا ہے، امریکی کمپنیاں اسلحے کے کارخانے بھی بھارت کے اندر لگا رہی ہیں ایسے میں کروڑوں لوگوں کی تاریک زندگیوں میں روشنی کون لائے گا یہ بھارت کے سوچنے کا مقام ہے، اسے چاہئے کہ نہ صرف کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی روکے، بلکہ اس آگ کو پھیلنے سے بھی روکے ورنہ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اسی طرح داؤں پر لگی رہیں گی۔