سپریم کورٹ کا فیصلہ اور سیاست دانوں کا فرض
سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چھ رکنی جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا ہے جو یہ تحقیقات کرے گی کہ رقم قطر کیسے پہنچی، یہ ٹیم سات روز کے اندر تشکیل دی جائے گی اور دو ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرے گی، وزیراعظم نواز شریف،حسن نواز اور حسین نواز اِس تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش ہوں گے، ٹیم ہر پندرہ روز بعد اپنی تحقیقات سے آگاہ رکھے گی، سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بنچ جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تھا، جس نے 3،2 کے تناسب سے فیصلہ سنایا، دو ججوں نے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ دیئے ہیں، جنہوں نے وزیراعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا، کورٹ روم نمبر ایک میں بنچ کا فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پڑھ کر سنایا جو 547صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب غیر رضا مند پائے گئے، اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔
اِس کیس میں عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد درخواست گزار تھے، اوّل الذکر نے اپنی درخواست میں سات استدعائیں کی تھیں،(1) وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور رُکن قومی اسمبلی کیپٹن(ر) صفدر کو قومی اسمبلی کی رُکنیت کے لئے نااہل قرار دیا جائے،(2) منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹی گئی دولت سے برٹش ورجن آئی لینڈ اور دیگر جگہوں پر بنائی گئی کمپنیوں اور جائیدادوں کی رقم پاکستان لانے کا حکم دیا جائے،(3) چیئرمین نیب کو حکم دیا جائے کہ گزشتہ 15سال سے زیر التوا میگا کرپشن کیسوں کی تحقیقات مکمل کی جائیں،(4) سیکرٹری داخلہ کو نواز شریف اور اُن کے اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا جائے،(5) بیرونِ مُلک جائیدادوں کی رقم واپس لانے کے لئے سیکرٹری قانون اور چیئرمین نیب کو کارروائی کا حکم دیا جائے، (6) چیئرمین ایف بی آر کو شریف خاندان کے ٹیکس گوشواروں اور اثاثوں کی تحقیقات کا حکم دیا جائے،(7) وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے اُنہیں نااہل قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں جو جے آئی ٹی بنائی جائے گی وہ پاکستان سے رقم قطر جانے کے معاملے کی تحقیقات کرے گی اور ساٹھ دِن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کر دے گی، اِس رپورٹ میں ٹیم جس نتیجے پر پہنچے گی اُسی کی روشنی میں یہ فیصلہ ہو گا کہ درخواست دہندگان نے اپنی درخواستوں میں فاضل عدالت سے جو استدعائیں کی ہیں اُن کے متعلق کیا فیصلہ ہو گا، گویا درخواستوں کے حتمی فیصلے کا انحصار جے آئی ٹی کی تحقیقات پر ہی ہو گا اِس لحاظ سے جے آئی ٹی کی تحقیقات کی بڑی اہمیت ہے، وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے دونوں صاحبزادوں کو اِس ٹیم کے سامنے تحقیقات کے لئے پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے، پاکستان کے سیاسی کلچر میں اِس بات کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ کبھی کسی وزیراعظم کو اِس طرح کی کسی تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش نہیں ہونا پڑا، وزیراعظم کو کسی ٹیم نے کبھی خود بُلایا اور نہ کسی عدالت نے ایسا کوئی حکم دیا اِس لحاظ سے اِس نوعیت کا یہ پہلا حکم ہے جو خوشگوار ہَوا کا جھونکا ہے کہ حکمران اپنے آپ کو ہر معاملے کی تحقیقات سے بالا تر نہ سمجھیں۔فاضل عدالت کی جانب سے یہ حکم بڑے دور رس نتائج کا حامل ہے، عدالت اگر اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قطر رقم جانے اور قطری شہزادے کے خط کے معاملے کی تحقیق کی ضرورت ہے تو یہ بہت مناسب فیصلہ ہے۔ درخواست دہندگان نے اگر اِس سلسلے میں کافی ثبوت عدالت کے روبرو پیش کئے ہوتے تو ان کی روشنی میں فیصلہ ہو سکتا تھا، بظاہر ایسے کوئی دستاویزی ثبوت درخواست دہندگان کی طرف سے پیش نہیں کئے گئے یا وہ ناکافی تھے اِس لئے فاضل عدالت نے اِس معاملے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے، اب درخواست دہندگان اور مدعا علیہان کی ذمے داری ہے کہ اُن کے پاس الزامات اور دفاع کے لئے جو بھی ثبوت ہوں وہ ٹیم کے روبرو پیش کر دیں اور تحقیقات کے لئے ٹیم کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں تاکہ ٹیم کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں آسانی ہو، ٹیم کی تشکیل کا حکم جاری ہونے کے بعد درخواست دہندگان کی ذمے داری ختم نہیں ہو گئی اگر اپنی اگلی سیاست میں الجھ کر وہ اپنی اِس ذمے داری سے پہلو تہی کر گئے تو الزامات کو ثابت کرنا آسان نہیں رہے گا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنے کسی منطقی انجام تک اِسی صورت پہنچ سکتا ہے جب جے آئی ٹی بھی تحقیقات کے بعد کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے۔
عمران خان نے حسبِ معمول ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے اگرچہ اب کی بار’’وجوہ‘‘ مختلف بیان کی ہیں یہ مطالبہ وہ اسلام آباد دھرنے کے ایام سے کرتے چلے آ رہے ہیں اور ایک موقع پر تو انہوں نے یہ ارشاد بھی فرمایا تھا کہ وہ استعفا لئے بغیر نہیں ٹلیں گے چاہے اُنہیں ایک سال تک دھرنے پر بیٹھنا پڑے۔اگرچہ وہ126دن تک دھرنا دے کر بیٹھے رہے تاہم اُن کے نقطہ نظر سے اِسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ استعفا لینے میں وہ پھر بھی کامیاب نہیں ہوئے، اس کے بعد بھی انہوں نے جو سیاست کی اس کا مطمح نظر بھی نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ تھا، اِس مقصد کے لئے وہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے بھی نکلے تھے جس میں اُنہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے شاید اس پتھر کو چوم کر رکھ دیا اور کبھی بھول کر بھی ’’لاک ڈاؤن‘‘ کا نام نہیں لیا۔سپریم کورٹ میں اپنے کیس میں انہوں نے عدالت سے جو استدعائیں کیں ان میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ فاضل عدالت نواز شریف کو نااہل قرار دے دے، اُن کی یہ استدعا تو قبول نہیں ہوئی جس کے فوری بعد استعفے کا مطالبہ، دھرنے میں استعفے کے مطالبے کی صدائے باز گشت ہی دکھائی دیتی ہے، جس کا نتیجہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں نکلنے والا۔ البتہ یہ اُن کے من کی موج ہے وہ استعفے کا مطالبہ کر کے اپنے آپ کو خوش رکھنا چاہتے ہیں تو کرتے رہیں۔
بہتر یہ ہے کہ اب وہ اگلے انتخابات کی تیاری کریں، اپنی جماعت کی تنظیم کو مضبوط کریں، الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو ووٹروں کو گھروں سے نکالنے اور پولنگ سٹیشنوں پر پہنچ کر اپنی رائے کے اظہار کی تربیت دیں اور پارلیمینٹ میں انتخابی اصلاحات کی جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں اپنی جماعت کی بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں، اور ایسی انتخابی اصلاحات کرانے میں کامیاب ہو جائیں، جن کے ذریعے الیکشن ان کے اطمینان کے مطابق منصفانہ، آزادانہ اور شفاف ہوں۔ اگر انہوں نے الیکشن کی تیاری نہ کی اور محض استعفا، استعفا پکارتے رہے تو ڈر ہے کہ استعفا تو اُن کی حسب خواہش آنے والا نہیں، الیکشن میں اُن کی کارکردگی کہیں ایسی نہ ہو جائے جیسی بہت سے ضمنی انتخابات میں نظر آئی، شارٹ کٹس پر نظریں جما کر انہوں نے نتیجے دیکھ لئے اِن سے اُنہیں کچھ حاصل نہیں ہُوا،نہ آئندہ ہو گا، وزیراعظم بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں قومی اسمبلی کی172نشستوں پر کامیابی کی منصوبہ بندی کریں، اس کے بغیر سب کچھ لاحاصل ہے وہ اگر وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو اِس مقصد کے لئے بیساکھیوں کے سہارے چھوڑ کر وہ کام کریں، جن سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔