افغانستان میں داعش کی موجودگی،ہمسایوں کے لئے خطرہ

افغانستان میں داعش کی موجودگی،ہمسایوں کے لئے خطرہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی سے ہمسایہ ممالک کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں،افغانستان میں عدمِ استحکام سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا وہاں امن و امان پاکستان کے لئے اہم اور مفاد میں ہے،کیونکہ افغانوں کے تنازعات سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہم افغان حکومت اور عوام کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہیں،پاکستان کئی دہائیوں سے50لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔انہوں نے کہا تعلیم کے لئے افغان طلبا کو وظائف بھی دیئے جا رہے ہیں اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے بھی افغانستان کی مدد کی جا رہی ہے۔وزیراعظم نے اِن خیالات کا اظہار امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کی سربراہی میں ملاقات کرنے والے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جنوبی ایشیا کی صورتِ حال پر جو نظرثانی کی ہے اِس میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں اور افغانستان میں امان و استحکام کے لئے پاکستان کی کمٹمنٹ کو پیشِ نظر رکھے۔جنرل ووٹل نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں امَن اور سیکیورٹی کے حصول کے لئے پاکستان کو اہمیت دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کو سراہتا ہے۔
افغانستان میں داعش کی موجودگی کی اطلاعات پر پاکستان کی تشویش بجا اور بروقت ہے، کیونکہ اگر داعش کے جنگجو کسی جانب سے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں تو وہ افغانستان ہی ہے، بعض جنگجو گروپوں کے ساتھ مل کر داعش افغانستان میں کارروائیاں بھی کر رہی ہے اور دارالحکومت کابل کے ہائی سیکیورٹی زون کے اندر بھی گزشتہ ہفتوں میں جو خونریز دہشت گردی ہوتی رہی ہے اس سے یہ احساس پختہ تر ہوتا ہے کہ داعش نے وہاں اپنے قدم جمانے کا آغاز کر دیا ہے۔حال ہی میں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے جن دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر کے ان میں موجود دہشت گردوں کو ہلاک کیا ان ٹھکانوں میں جس انداز کے انتظامات کئے گئے تھے اُن سے یہ تاثر قائم ہوتا تھا کہ یہ داعش کے لوگ ہو سکتے ہیں،پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اِس سلسلے میں چوکس ہیں اور چار سو نظر رکھی جا رہی ہے، دو روز قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک تقریب میں نوجوانوں کو خبردار بھی کیا تھا کہ وہ داعش کی سرگرمیوں سے ہوشیار رہیں،کیونکہ اُس نے نوجوانوں کو خصوصی طور پر اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے اُن کے ساتھ رابطے کر کے اُنہیں گمراہ کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی وفد سے بات چیت کرتے ہوئے افغانستان میں داعش کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی ہے وہ قابلِ فہم ہے۔
افغانستان میں اس وقت جو امریکی فوج موجود ہے وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں براہِ راست حصہ نہیں لے رہی اور یہ کام افغان نیشنل آرمی کے سپرد کیا جا چکا ہے امریکی فوج زیادہ تر تربیتی امور سرانجام دے رہی ہے تاہم یہ بات تو انٹیلی جنس ذرائع سے امریکی فوج کے علم میں آ چکی ہو گی کہ داعش افغانستان میں اپنی کمین گاہیں بنا رہی ہے اور اپنے لوگوں کو تربیت دے کر اپنے اہداف پر متعین کر رہی ہے۔یہ اہداف نہ صرف افغانستان کے اندر ہیں،بلکہ افغانستان کے باہر بھی ہو سکتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحد مشترک ہونے کی وجہ سے ایسے خدشات بالکل بجا ہیں کہ داعش کے جنگجو افغانستان سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہو جائیں اِن علاقوں سے پاکستان نے دہشت گردوں کا صفایا عظیم قربانیاں دے کر کیا ہے اُن دشوار گزار علاقوں سے بھی دہشت گردوں کو نکال دیا گیا ہے جہاں انہوں نے بزعم خویش محفوظ ٹھکانے بنا لئے تھے۔امریکی افواج کو پاکستان کے ساتھ مل کر ایسی حکمت عملی طے کرنی چاہئے جس کے تحت داعش کا خاتمہ افغان سرزمین پر ہی ممکن ہو سکے اور اسے کسی جانب سے آگے بڑھنے سے روک دیا جائے۔امریکہ کے فوجی وفود پاکستان کے عسکری حکام سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں اور ان ملاقاتوں میں اُنہیں وضاحت کے ساتھ بتا دیا جاتا ہے کہ پاکستان ہر طرح کے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق اور بلا امتیاز کارروائیاں کر رہا ہے تاہم ابھی تک امریکیوں کے ذہن میں یہ بات کسی نہ کسی وجہ سے موجود ہے کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے موجود ہیں،حالانکہ یہ ٹھکانے اگر کسی مُلک میں ہو سکتے ہیں تو وہ افغانستان ہے، جہاں امریکی فوج خود موجود ہے اور اسے اِس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ افغانستان میں کون کون سے مسلح گروہ سرگرم عمل ہیں، بہترین لائحہ عمل یہی ہے کہ امریکی حکام پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے پر ایک ہی دفعہ سیرحاصل گفتگو کر لیں اور شکوک و شبہات رفع کر لیں تاکہ بار بار ایک ہی طرح کی الزام تراشی کی نوبت نہ آئے۔
افغانستان میں عدم استحکام کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں بھی دہشت گرد اب تک کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، حالیہ مہینوں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوئیں ان کی تحقیقات کے بعد یہ بات پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی کہ دہشت گرد نہ صرف افغانستان سے آئے تھے بلکہ وہ ایسے ٹیلی فون بھی استعمال کر رہے تھے جن کی سمیں افغانستان سے حاصل کی گئیں۔دہشت گردوں کو دورانِ واردات ہدایات بھی افغانستان سے ملتی رہیں،اب وزیراعظم پاکستان نے داعش کی افغانستان میں موجودگی کے بارے میں امریکی وفد کے ساتھ اپنی تشویش ظاہر کی ہے تو امریکی حکام کا فرض بنتا ہے کہ اس سلسلے میں سرگرمی سے پیش رفت کرتے ہوئے فوری طور پر کارروائیوں کا آغاز کر دیں اگر اِس خطرے کو نظر انداز کیا گیا تو یہ افغانستان میں تو تباہی لائے گا ہی، ہمسایہ ممالک میں بھی ٹھکانے بنانے کی کوشش کرے گا۔وزیراعظم پاکستان نے بہت بروقت اس خطرے کی نشاندہی بھی کر دی ہے اور اپنی تشویش کا اظہار بھی کر دیا ہے اب امریکہ کے لئے عملی اقدامات کا وقت ہے تاکہ داعش کے راستے میں مضبوط بند باندھا جا سکے۔

مزید :

اداریہ -