انتخابی اصلاحات بروقت منظور کرائی جائیں
انتخابی اصلاحات مرتب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے33ماہ بعد ایک بل کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت اگلے انتخابات کے لئے اصلاحات کی گئی ہیں، بل میں بعض انتخابی قوانین میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں، آئینی ترمیم پر اگلے مرحلے میں کام ہو گا، جس کے لئے ذیلی کمیٹی کام کرتی رہے گی۔ تحریک انصاف نے بل کی مخالفت کی اور اِس بنیاد پر کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا کہ اس کی تجاویز بل میں شامل نہیں کی گئیں یہ بل جلد ہی پارلیمینٹ میں پیش کر دیاجائے گا، کیونکہ الیکشن کمیشن نے خبردار کیا تھا کہ اگر بل کی منظوری میں تاخیر کی گئی تو اِس کا اثر اگلے عام انتخابات پر پڑے گا،کیونکہ اگر پرانے قوانین کے تحت ہی انتخابات کرائے گئے تو پرانی شکایات دوبارہ پیدا ہوں گی۔ امکان ہے کہ آج پارلیمانی کمیٹی کے ارکان بل پر دستخط کر دیں گے۔ جس پارلیمانی کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کے مسودۂ قانون کی منظوری دی ہے اس میں پارلیمینٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کے ارکان شامل ہیں یہ کم و بیش تین سال سے کام کر رہی ہے اور اگر قوانین پر نظرثانی کا کام تاخیر کا شکار نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ بہت پہلے مسودۂ قانون تیار کر لیا جاتا، اب آخری مرحلے پر تحریک انصاف نے کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی تجاویز نہیں مانی گئیں اِن تجاویز میں بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کے لئے ووٹ کا حق، بائیو میٹرک سسٹم کے تحت ووٹنگ، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور نگران حکومت کی تشکیل کے لئے قائدِ حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کو ناکافی قرار دیتے ہوئے پوری پارلیمینٹ سے مشورے کی تجویز دی گئی ہے۔
تحریک انصاف کی تجاویز کو حتمی مسودے میں کیوں شامل نہیں کیا گیا اس کے بارے میں تو کمیٹی کے سربراہ کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا تاہم بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی تجویز بہت پرانی ہے اور اصولی طور پر اس سے اختلاف نہ ہونے کے باوجود اس کی راہ میں عملی مشکلات کی وجہ سے شاید اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔پارلیمانی نظام میں حلقہ وار انتخاب ہوتے ہیں، ہر حلقے میں کئی کئی امیدوار ہوتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہونے کی وجہ سے لاکھوں امیدوار حصہ لے رہے ہوتے ہیں، اب ہر مُلک میں اتنے سارے امیدواروں کے لئے بیلٹ پیپروں سے لے کر نگران عملے تک کا تقرر ناممکنات میں سے ہے، بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کی سہولت البتہ دی جا سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ سے دو ہفتے پہلے ہی اِس کا اہتمام کر دیا جائے تاکہ یہ ووٹ بروقت گنتی میں شامل ہو سکیں۔ غالباً اس تجویز پر بھی اتفاق نہیں ہو سکاہمارا خیال ہے کہ ایسی ہی عملی مشکلات کی وجہ سے فی الحال اِس معاملے کو موخر کیا گیا ہو گا،جہاں تک مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا تعلق ہے یہ نظام جن ممالک میں رائج ہے وہاں بھی اِس سسٹم کے متعلق شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ابھی گزشتہ برس امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بعض مشینوں میں نقائص سامنے آئے تھے کہ ووٹ ایک امید وار کو ڈالا گیا اور جمع دوسرے کے اکاؤنٹ میں ہوگیا بھارت میں بھی ایسا ہو چکا ہے، اِس لئے اگر کوئی بائیو میٹرک مشینوں کے استعمال کو فول پروف ووٹنگ کا طریقہ سمجھتا ہے تو اِس کا یہ خیال درست نہیں ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار نے اپنے انتخابات اِسی سسٹم کے تحت کرانے کا پہلی مرتبہ آغاز کیا تو بھی اس سسٹم کے نقائص سامنے آئے،چنانچہ الیکشن ایک ہفتے کے لئے ملتوی کرنا پڑا اور پھر پرانے طریقے سے ہی انتخابات ہوئے،حالانکہ بار کے تمام ارکان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اُنہیں مشینوں کے استعمال میں کوئی دِقت نہیں ہونی چاہئے تھی،لیکن اگر ایک پروفیشنل تنظیم کے محدود سے الیکشن میں مشینوں کی کارکردگی میں نقائص سامنے آ گئے تو جہاں کروڑوں ووٹروں کو ایک ہی دن میں ووٹ ڈالنے پڑیں گے اور جن میں اَن پڑھ، نیم خواندہ اور واجبی تعلیم یافتہ ووٹر ووٹ ڈال رہے ہوں گے وہاں مشکلات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم نے بالآخر وقت کے ساتھ ساتھ رائج تو ہونا ہے،لیکن ووٹروں کو اِس سے مانوس کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو مل کر ایسا کوئی میکنزم بنانا چاہئے کہ ابتدا میں یہ نظام مرحلہ وار رائج کر دیا جائے،یہ تجربہ ضمنی انتخابات میں بہتر طریقے سے کیا جا سکتا ہے اور اس میں جو مشکلات سامنے آئیں اُن کا حل بھی نکال لیا جائے،لیکن یہ سب کچھ مل بیٹھ کر طے کرنا ہو گا،کمیٹیوں کا بائیکاٹ کر کے یا ’’مَیں نہ مانوں‘‘ کا رویہ اختیار کر کے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن پر بھی اعتراض ہے،حالانکہ اِس کی تشکیل آئین میں درج طریقِ کار کے عین مطابق ہوئی ہے تاہم جس انداز میں تحریک انصاف نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل چاہتی ہے اس پر بھی غور کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں،عین ممکن ہے اِس طریقے سے کوئی بہتر راستہ نکل آئے،کیونکہ ہمارے ہاں مسئلہ الیکشن کمیشن نہیں، فی نفسہٖ الیکشن ہی ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں اور جن انتخابات کو آج تک منصفانہ ہونے کا سرٹیفکیٹ بڑی فراخ دِلی سے دے دیا جاتا ہے اُن کی حقیقت یہ تھی کہ شیخ مجیب الرحمن نے اپنی کامیابی کا اعلان دن کے گیارہ بجے ہی یہ کہہ کر دیا تھا کہ ہماری پارٹی162 میں سے160 نشستیں جیت رہی ہے۔ایک نشست ہم نے نور الامین اور دوسری راجہ تری دیو رائے کے لئے خود چھوڑ دی ہے،حالانکہ ہماری پارٹی کے کارکنوں کی تو ضد تھی کہ وہ ساری کی ساری نشستیں جیتیں گے۔شیخ مجیب الرحمن کا انٹرویو اب بھی بی بی سی کے آرکائیوز میں موجود ہو گا اِس کا ریکارڈ نکال کر سُنا جا سکتا ہے پاکستان کے اخبارات میں اُن کا یہ انٹرویو اُن کی اپنی بنگالی آمیز اُردو میں چھپا ہُوا بھی موجود ہے،پولنگ شروع ہونے سے پہلے ہی عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کر لیا تھا اور کسی مخالف کو ووٹ ڈالنے کے لئے نہیں آنے دیا گیا،مخالفوں کو جو ووٹ پڑے وہ بھی عوامی لیگی ووٹروں سے یہ کہہ کر ڈلوا دیئے گئے کہ پتہ چلے مخالف بھی ووٹ ڈالنے آئے تھے،لیکن ہماری سادگی یہ ہے کہ ایسے انتخابات کی شان میں آج تک قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے انتخابات کا اعتبار قائم کرنا ہے جو آج تک نہیں ہُوا،ہر ہارنے والی جماعت جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔2013ء کے انتخابات کے متعلق سپریم کورٹ کا کمیشن قرار دے چکا ہے کہ ان میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی،لیکن آج تک دھاندلی کا شور مچایا جا رہا ہے، انتخابات کا اعتبار اُسی صورت قائم ہو گا اگر انتخابی قوانین بہتر بنائے جائیں اور اُن پر پوری طرح عمل کیا جائے،نئے مسودہ قانون میں آٹھ انتخابی قوانین کو ختم کر دیا گیا ہے اور اُن کی جگہ ایک جامع قانون بنایا گیا ہے۔اِس مقصد کے لئے66 قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔اگر یہ مسودہ بروقت منظور نہ ہوا تو پھر پرانے انتخابی قوانین کے تحت ہی انتخابات کرانے پڑیں گے اور حسبِ سابق ہارنے والوں کی جانب سے شور اُٹھے گا کہ دھاندلی ہو گئی ہے،اِس لئے ابھی وقت ہے کہ بہتر انتخابی قوانین بنا لئے جائیں اور اُن پر اُن کی روح کے مطابق عملدرآمد کا اہتمام کر لیا جائے،بصورت دیگر اصلاحِ احوال کا خواب کئی سال تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔