تمام صوبوں کی یکساں ترقی کے تقاضے

تمام صوبوں کی یکساں ترقی کے تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وفاق پورے ملک کی یکساں ترقی کے لئے مصروف ہے، کراچی ملک کی شہ رگ ہے جس کی ترقی و خوشحالی کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں کراچی میں دیرپا امن کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں، وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار گورنر ہاؤس کراچی میں سندھ کے گورنر محمد زبیر عمر کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا، اس موقعہ پر گورنر نے انہیں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں، صنعت کاروں، تاجروں اور دوسرے تمام سٹیک ہولڈروں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ ترقیاتی پیکج سے عوامی مسائل کے حل میں مدد ملے گی وفاق کی معاشی پالیسی کے سب سے زیادہ مثبت نتائج صوبہ سندھ سے حاصل ہو رہے ہیں۔
اس وقت دو صوبوں (سندھ اور خیبرپختونخوا) میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں کام کر رہی ہیں دونوں جماعتیں وفاق میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وفاقی حکومت کے خلاف تابڑ توڑ حملے بھی کرتی رہتی ہیں، عمران خان تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر کٹھ پتلی کی پھبتی بھی کستے ہیں چونکہ وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکمرانی ہے اس لئے باہمی سیاسی اختلافات کی موجودگی تو عین فطری ہے۔ تینوں جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی کا بھی تقاضا ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کو سراہیں اور مخالف جماعتوں کی حکومتوں کو ہدف تنقید بنائیں۔ تاہم بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ بیان بازی کا آہنگ اتنا تیز ہو جاتا ہے کہ حفظ مراتب کا پاس لحاظ بھی نہیں رہتا۔
وفاقی حکومت کی ذمہ داریاں ملک گیر ہوتی ہیں صوبوں میں حکومت کسی بھی جماعت کی ہو وفاقی کو اس کی سرپرستی کرنی ہوتی ہے، ریونیو کا بڑا حصہ بھی وفاق ہی کی جانب سے صوبوں کو منتقل ہوتا ہے بعض اوقات جس کی ادائیگی میں تاخیر بھی ہو جاتی ہے کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ وفاق صوبے کو بروقت ادائیگی نہیں کر پاتا اور کبھی صوبے اپنے ذمے واجبات (مثلاً بجلی اور گیس کے واجبات) بروقت ادا نہیں کر پاتے، ہونا تو یہ چاہئے کہ اختلافِ رائے کی صورت میں ایسے معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ مجاز فورم پر بیٹھ کر نمٹا لئے جائیں لیکن جوشیلے وفاقی اور صوبائی وزیر باہمی توتکار میں اُلجھ جاتے ہیں، جب سے دھرنوں کی سیاست شروع ہوئی ہے یہ ایک امرت دھارا بن کر رہ گیا ہے اور صوبہ کے پی کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ماضی میں یہ دھمکی کئی بار دے چکے ہیں کہ اگر فلاں تاریخ تک واجبات ادا نہ کئے گئے تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی کسی بات پر ناراض ہو کر سندھ میں نیب کے دفاتر بند کرنے کی دھمکی دے دی تھی اور احتساب کے وفاقی ادارے کے بالمقابل اپنا صوبائی ادارہ بنانے کی راہ پر چل نکلے تھے اور صوبائی اسمبلی سے قانون بھی منظور کرا لیا گیا تھا لیکن اس قانون کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا اس لئے عملی طور پر بات آگے نہیں بڑھی اسی طرح آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے معاملے پر بھی وفاق اور صوبے میں تنازعہ پیدا ہو گیا تھا اور دونوں حکومتوں کے وزراء بیان بازی پر اتر آئے تھے یہ تو اچھا ہوا کہ سول سوسائٹی کے کچھ لوگ اس معاملے کو عدالت میں لے گئے جہاں سے اے ڈی خواجہ کو کام کر تے رہنے کی ہدایت کی گئی۔ اب بھی یہ معاملہ متنازعہ بنا ہوا ہے۔
یہ اور ایسے ہی معاملات جب عوام الناس کے بحث مباحثے کا موضوع بنتے ہیں تو مجموعی طور پر نہ تو ملک کے لئے اچھا تاثر اُبھرتا ہے اور نہ ہی اس سے صوبوں کی شان میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے لیکن ملک کی تخلیق صوبوں نے نہیں کی، وفاق نے کی تھی پاکستان کا وفاق پہلے وجود میں آیا تھا اور پاکستان کے وجود کو چار چاند لگانے والے صوبے بعد میں تشکیل پائے تھے ملک مختلف رنگوں کا ایک گلدستہ ہے جس کے رنگ اپنی اپنی جگہ بہار دکھاتے ہیں اگر ایک رنگ کے پھول کملا جائیں تو مجموعی طور پر گلدستے کی رنگینی متاثر ہوتی ہے اس لئے وفاق کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر رنگ کے پھولوں کی یکساں آبیاری کرے تاکہ ان کی آب و تاب متاثر نہ ہو کوئی صوبائی حکومت اگر کسی وجہ سے وسائل کی قلت کا شکار ہو تو یہ وسائل وفاق کی طرف سے فراہم ہونے چاہئیں یہ کوئی احسان نہیں وفاق کی ذمے داری ہے وزیر اعظم عباسی نے بالکل درست کہا ہے کہ صوبوں کو ترقی کے لئے یکساں مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔
صوبہ سندھ کو شہری اور دیہی سندھ کی تقسیم کی وجہ سے بہت سے مسائل در پیش ہیں کراچی سمیت شہری سندھ میں چونکہ صوبے کی حکمران جماعت کی مخالف جماعت کو قومی و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں نمائندگی حاصل ہے اس لئے دونوں جماعتوں کے درمیان ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے معاملے پر کوئی نہ کوئی تنازعہ سر اٹھاتا رہتا ہے۔ کراچی کے میئر کو شکایت ہے کہ انہیں شہر کی ترقی کے لئے ضروری فنڈز نہیں دیئے جاتے جبکہ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ جتنے فنڈز شہر کراچی کا حق ہے وہ بلدیہ کراچی کو فراہم کر دیئے گئے ہیں اگر یہ فنڈ نیک نیتی سے خرچ کئے جائیں تو شہر کے ترقیاتی کام بطریق احسن نپٹائے جا سکتے ہیں، دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر ترقیاتی فنڈز کی خورد برد کا الزام بھی لگاتے ہیں حالانکہ دونوں جماعتیں طویل عرصے تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شریک رہی ہیں اگر یہ جذبہ برقرار رہتا تو شہر کے باسیوں کو بھی فائدہ ہوتا اور شہر کی بھی وہ حالت نہیں ہوتی جو اس وقت ہو چکی ہے لیکن سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے راستے الگ ہو گئے سیاسی تقاضے اپنی جگہ لیکن شہر کی ترقی تو شہریوں کا حق ہے ویسے بھی کراچی بین الاقوامی شہر ہے یہ پاکستان کا چہرہ ہے یہ جتنا پر امن اور ترقی یافتہ ہوگا اتنا ہی پاکستان کا امیج بہتر ہوگا، لیکن کئی عشروں کی بدامنی نے شہر اور شہریوں کا بڑا حال کر دیا ہے اگرچہ اب وہ وقت تو نہیں رہا جب شہر آناً فاناً گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اُٹھتا تھا اور اندھا دھند فائرنگ کی زد میں آکر بے گناہ لوگ مارے جاتے تھے اور شہر خود کار طریقے سے کھلتا اور بند ہوتا تھا۔ ایسے ایسے ہولناک طریقے سے شہریوں کو اذیت پہنچائی گئی کہ آج بھی ان کے ذکر سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اب اگر شہر میں امن قائم ہوا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ترقیاتی فنڈز پر تنازعات کو بھول کر اور اپنی اپنی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر شہریوں کی بلاتفریق خدمت کی جائے اور ان کی دعائیں لی جائیں۔

مزید :

اداریہ -