سوشل میڈیا کی پھیلائی ہوائی انارکی

سوشل میڈیا کی پھیلائی ہوائی انارکی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر داخلہ احسن اقبال نے ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ سوشل میڈیا پر انتہا پسندی،خلفشار اور انتشار پھیلانے والے عناصر کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کے جائیں، کیونکہ مُلک دشمن قوتیں سوشل میڈیا کو آلہ بنا کر معاشرے میں انارکی پھیلانا چاہتی ہیں۔وزیر داخلہ نے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا، جہاں اُن کی زیر صدارت اجلاس میں ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر داخلہ نے ایف آئی اے سے کالی بھیڑیں فارغ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جدید بنیادوں پر تنظیم نو کی جائے اور ایف آئی اے کو مثالی ادارہ بنایا جائے۔
سوشل میڈیا اِس وقت ایک ایسا جوہڑ بن چکا ہے،جس میں ہر قسم کی غلاظت جمع ہے،جس سے ہروقت بدبو کے بھبھوکے اُٹھتے رہتے ہیں،رائے کی آزادی بری بات نہیں ہے اور تہذیب و شائستگی کی حدود میں رہ کر اپنے خیالات ظاہرکرنے پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہئے،لیکن ہر قسم کے قوانین، ادب آداب، اخلاقیات اور شرافت کو بالائے طاق رکھ کر مادر پدر آزادی کا اظہار سوشل میڈیا استعمال کرنے والے جس انداز میں کر رہے ہیں اِس کا ایک مظاہرہ گزشتہ دِنوں بعض بدباطنوں کی جانب سے محترم و مقدس شخصیات کے متعلق توہین آمیز کلمات سے بھی ہوا، یہ لوگ اِس خیال سے کہ اُن کی نشاندہی نہیں ہو سکے گی، اِس لئے وہ ہر قسم کی لغویات اپنے بنائے ہوئے پیجز پر اَپ لوڈ کرتے چلے جاتے تھے،لیکن جلد ہی اُن تک رسائی ہو گئی اور اُنہیں گرفتار کر لیا گیا تو اُن کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور اُنہیں احساس ہوا کہ وہ اگر یہ سمجھ کر خرافات لکھ رہے تھے کہ وہ چھپ چھپا کر یہ کارروائی کر رہے ہیں تو اُن کا یہ خیال غلط ثابت ہو گیا۔
سوشل میڈیا پر محترم شخصیات، اعلیٰ سرکاری عہدیداروں، سیاسی رہنماؤں، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں، جرنیلوں، گورنروں، وزرائے اعلیٰ غرض ہر کسی کے متعلق غلط معلومات سے بھرپور منفی اور توہین آمیز ریمارکس درج کئے جا رہے ہیں،بے بنیاد الزام تراشی کا ایک طوفان ہروقت اٹھا رہتا ہے، معیشت کے بارے میں بھی غلط اعداد و شمار دیئے جاتے ہیں ایسی ہی بے بنیاد اور غلط سلط معلومات کو بنیاد بنا کر بعض نام نہاد تجزیہ نگار اپنے تبصرے ٹیلی ویژن چینلوں پر شروع کر دیتے ہیں، اگرچہ بعض اطلاعات کی تردید فوراً ہو جاتی ہے لیکن جن باتوں کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہوتا وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں تک اِسی طرح پہنچ جاتی ہیں، ڈس انفارمیشن کی اس مہم سے مُلک کا کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی شخصیت بچی ہوئی نہیں،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر منفی اور بے سروپا تبصروں سے بھی گریز نہیں کیا جاتا،فوج کے اندر اگر کوئی افسر ذاتی وجوہ کی بنیاد پر استعفا دے دیتا ہے تو اس کے پیچھے ایسے ایسے لایعنی محرکات تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا،سیاسی شخصیات کے رشتہ دار افسروں کو بھی جن کی دیانت داری اور امانت ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا ہوتی ہے انہیں صرف رشتے داری کی بنیاد پر ، نہیں بخشا جاتا غرض سوشل میڈیا کے پردے میں چھپے ہوئے یہ وہ ناوک انداز ہیں جن کے تیروں سے کوئی بھی شریف آدمی بچا ہوا نہیں ہے اِس لئے وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کو بہت بروقت ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ ایسے عناصر پر نظر رکھیں اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کر کے اُن لوگوں تک پہنچیں جو سائبر کرائمز کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے وابستہ خواتین و حضرات نے بھی سوشل میڈیا پر اودھم مچا رکھا ہے وہ اپنے اپنے سیاسی رہنما کی تعریف و توصیف میں تو زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں اور ان میں ایسی ایسی صفات ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو ان شخصیات کو خود بھی اپنے اندر نظر نہیں آتیں،لیکن ان مداحین کی خوردبین سے بھی تیز نگاہیں اُن خوبیوں کو دیکھ لیتی ہیں،جبکہ مخالفت رہنماؤں کے اندر اُنہیں دُنیا کی ہر برائی نظر آ جاتی ہے، اور وہ مخالفین کو ہر قسم کی گالی سے نوازنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔اگر کوئی دوسرا اُن کے پسندیدہ لیڈر کے بارے میں کوئی درست بات بھی کہہ دے تو آستینیں چڑھا لیتے ہیں، ایسے مناظر کبھی کبھار ٹی چینلوں کے ٹاک شوز میں بھی نظر آ جاتے ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر جب یہ خیال بھی ہو کہ اُسے کوئی مانیٹر نہیں کر رہا وہ کس قسم کی ذِلّہ رُبائی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہوں گے۔سوشل میڈیا پر دی جانے والی گالیوں کا ہی تجزیہ کر لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ لوگ ذلتوں کی کِس انتہا کو چھو رہے ہیں۔اعلیٰ عدالت سے کوئی فیصلہ اپنی من مرضی کے مطابق آ جائے تو تعریفیں شروع کر دیتے ہیں اور اگر فیصلے میں اُن کے خلاف باتیں ہوں تو مخالفت میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔
نازک مذہبی معاملات پر بھی سوشل میڈیا میں ایسا اظہارِ خیال ہر وقت جاری رہتا ہے، جس سے نہ صرف مخالفین کے عقائد کو ہدف تنقید و ملامت بنایا جاتا ہے،بلکہ انہیں قتل کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں،کسی بھی شخصیت کے ذمے کوئی بھی گناہ لگا کر اسے واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے ہر وقت اشتعال انگیزی کا اندیشہ رہتا ہے،فرقہ وارانہ اختلافات جائز حدود سے نکل کر جارحانہ الزام تراشی تک پہنچ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے سے روا داری عنقا ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ اشتعال پھیلتا جاتا ہے جلتی پر تیل ڈالنے کا یہ کام سوشل میڈیا نے اپنے ذمے لے رکھا ہے،جس کے مظاہر ہر وقت کسی نہ کسی انداز میں معاشرے میں نظر آتے رہتے ہیں۔
یہ جو بعض سیاسی رہنما اپنے جلسوں میں اشتعال انگیز زبان استعمال کر کے اپنے سننے والوں کو بغاوت پر اُکساتے رہتے ہیں اور بولتے ہوئے اُن کے منہ سے جھاگ نکلتی رہتی ہے اور زبان شعلے اگلتی رہتی ہے اور جوشِ جذبات میں گالیوں پر بھی اُتر آتے ہیں یا سب سوشل میڈیا کی شتر بے مہار اور اشتعال سے بھرپور تحریروں کا ہی پر تو ہے،سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ اشتعال انگیز ماحول ملک و ملت کو کِس قعرِ مزّلت میں گرائے اور کِس قسم کی انارکی سے دوچار کرے گا، اِس سے پہلے کہ آگ کا یہ الاؤ مزید پھیلے اور معاشرتی امن کے خرمن کو پھونک ڈالے حکومت، اس کے اداروں اور تمام سٹیک ہولڈروں کو اِس پر غور کر کے کوئی نہ کوئی قابلِ عمل حل نکالنا ہو گا،جو لوگ اشتعال انگیزی کے مرتکب پائے گئے ہیں اور روز و شب اس کا اعادہ بھی کرتے رہتے ہیں اُن سے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہئے اور ذمے داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے نوسر بازی کے نئے نئے طریقے بھی رواج پا رہے ہیں، لوگوں کو ایسے پیغامات بھیجے جاتے ہیں جن میں اُنہیں بھاری انعامات کی نوید سنائی جاتی ہے، جس کے جواب میں رابطہ کرنے والوں کو لاکھوں روپے سے محروم کیا جاتا ہے، ایسے پیغامات عام ٹیلی فون صارفین کو بھی اکثر ملتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اُن کے 30ہزار روپے نکل آئے ہیں،فلاں نمبر پر شناختی کارڈ کے ذریعے رابطہ کریں، بظاہر اس کام میں وہ لوگ بھی ملوث نظر آتے ہیں جو موبائل فون کمپنیوں کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں، کیونکہ حیران کن طور پر آپ نیا ٹیلی فون کنکشن لیں تو چند گھنٹوں کے اندر اندر ہی ایسا پیغام آپ کو مل جاتا ہے اس کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ نوسر بازوں کے گروہوں نے موبائل فون نیٹ ورک کے اندر تک رسائی کی ہوئی ہے، عام ٹیلی فون صارفین کا یہ حال ہے تو سوشل میڈیا کی نوسر بازیوں کا تو کوئی شمار و قطار نہیں جس کے ذریعے اربوں کے فراڈ ہوتے ہیں اِس لئے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز وِنگ کو فعال کر کے اس کینسر سے نمٹنا ہو گا جو پھیل کر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟

مزید :

اداریہ -