تمام فریق اصولوں پر عمل کریں!
یہ طے شدہ اصول ہے کہ جو بھی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو، اس پر تبصرہ نہیں کیا جاتا، البتہ فیصلے پر نیک نیتی سے تنقید بھی ہوسکتی ہے، اسی کا اعادہ چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ روز جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ’’قومی مفاد میں صبر سے کام لے رہا ہوں، عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں‘‘ چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ بھی کہا کہ ’’غلط اقدامات پر مثبت تنقید ٹھیک، مگر اداروں کا تقدس پامال کرنا درست نہیں آبزرویشن اور ریمارکس فیصلے نہیں ہوتے‘‘۔ چیف جسٹس نے بالکل درست کہا اور یہ قانونی اصول ہے جس کی وضاحت کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل سیاسی راہنماؤں اور میڈیا سمیت بہت سے تجزیہ کار( بزعم خود) حضرات بھی کھل کر عدالتی کارروائی کو ہدف تنقید بناتے ہیں، جہاں تک ان تمام حضرات کا تعلق ہے تو یہ خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہر ایک کی خواہش اور شاید کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ فیصلہ جلد اور اس کی مرضی کے مطابق ہو، اسی نوعیت کی گفتگو ہمارے سیاسی عمائدین بھی کرتے ہیں، ایک عدالت اندر عدالتی کمرے میں کارروائی کرچکی ہے تو باہر میڈیا کے ساتھ مل کر یہ اپنی عدالت لگالیتے ہیں، یوں عدالتی کارروائی اور عمل کے حوالے سے بھی کنفیوژن بڑھتا ہے۔ جہاں تک چیف جسٹس محترم کا یہ کہنا ہے کہ وہ قومی مفاد میں صبر سے کام لے رہے ہیں تو یہ اس حد تک بھی درست ہے کہ ابھی تک عدالتی توہین کے حوالے سے توہین عدالت کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بعض حضرات کی طرف سے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں توہین عدالت کی درخواستیں بھی دائر کی گئیں جو زیر التوا ہیں۔ یہاں چیف جسٹس کے صبر اور کارروائی نہ کرنے کے اقدام کو سراہنا چاہئے کہ اس طرح کئی الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں کیونکہ ہمارے بعض سینئر وکلاء بھی ایسی باتیں کرجاتے ہیں بلکہ بعض وکلاء حضرات تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ عدلیہ کے حوالے سے ایسا کیا جائے۔ ملک اس وقت کئی قسم کے بحرانوں سے دوچار ہے ایسے میں عدالتوں میں زیر سماعت اہم مقدمات کا بھی معاملہ ہے جن کی نوعیت سیاسی بن جاتی ہے، انہی مقدمات کے حوالے سے ’’ناروا‘‘ باتیں ہوتی ہیں اور یہ سبھی کرتے ہیں، ان سب کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا چاہئے اور بقول چیف جسٹس فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے، یہی رویہ ہونا چاہئے لیکن اس کے لئے یہ بھی لازم ہے، انصاف ہوتا نہیں، انصاف ہوتا نظر بھی آناچاہئے، فاضل عدلیہ کو تو بہت پہلے یہ نوٹس لینا چاہئے تھا اور عدالتی کارروائی کے سوا دوسری قسم کی تمام کارروائیوں کو شائع یا نشر کرنے کی ممانعت کردینا چاہئے تھی کہ ماضی میں بہت سے اہم کیسوں میں ایسا ہوتا رہا ہے، معاشرے کو انتشار سے بچانے کے لئے تمام اداروں اور تمام فریقوں کو کھیل کے اصولوں پر ہی عمل کرنا ہوگا۔