فیضان ِحضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نام نامی اسم گرامی:

فیضان ِحضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نام نامی اسم گرامی:

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


شیخ المشائخ حضور داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی تحریر کے مطابق آپکا نام نامی اسم گرامی ؛علی بن عثمان جلابی یا علی بن عثمان بن علی الجلابی الغزنوی ہے ۔آپ غزنی کے نواحی گاﺅںجلاب و ہجویرکے رہنے والے تھے ،بر صغیر پاک و ہند میںداتا گنج بخش کے لقب سے مشہو ر و معروف ہیں ۔ گنج بخش کا لقب حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے مزار مبارک پر چلہ کشی کے بعد الوداعی منقبت میںپیش کیا تھا ۔
سلسلہ نسب :
سوانح نگا روںاور محققین نے اس طرح سلسلہ نسب پر اتفاق کیا ہے۔ حضرت علی ہجویری بن سید علی بن عبدالرحمٰن بن شجاع بن ابو الحسن اصغر بن زید رحمتہ اللہ علیھم بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اس طرح آپ ہاشمی سید ہیں اور آپکا سلسلہ نسب آٹھویںپشت میں حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ملتا ہے۔
ولادت با سعادت:
آپ کی ولادت کی تاریخ بارے مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے عام طور پر آپ کا سال ولادت400ھ تسلیم کیا گےا ہے۔
اساتذہ :
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں حضرت ابو العباس محمد شقانی رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر کیا ہے تو بڑے ادب سے ان کا نام لیا ہے اور ان کی مہربانیوں اور عنایتوں کو یا د کیا ہے۔ حضرت داتا صاحب اپنے پیر و مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مرشد شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ ہیں ۔جو علم تفسیر وروایات (حدیث)کے جید عالم تھے۔اپنے مرشد کے بارے میں داتا صاحب فرماتے ہیں” وہ صوفیائے متاخرین میں زینت اوتاد اور شیخ عباد ہیں۔اپنے مرشد گرامی سے جو تعلق خاطر حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کو تھا اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ حضرت ابو الفضل رحمتہ اللہ کا جب وصال ہوا تو سر علی ہجویری قدس سرہ کی گود میں تھا۔
حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے ہمعصر مشائخ:
ارباب حقیقت اور طریقت اپنے دل کی لگی آگ بجھانے اور تشنگی باطن کو دور کرنے کیلئے بے شمار اسلامی ممالک کا سفر اختیا ر فرمایا آپ کا عظیم مقصد یہ ہی تھا کہ قرب الہی عزوجل اور عشق رسول ﷺ کے جام سے اپنے دماغ کو معطر کروں۔ اس سفر میں آپ نے جن مشائخ عظام سے استفادہ کیا ، حضرت ابو القاسم بن علی بن عبداللہ گرگانی، حضرت امام قاسم القشیری صاحب رسالہ القشریہ، حضرت ابو سعید ابو الخیر رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابو احمد المظفر بن احمد رحمتہ اللہ علیہ۔اور دیگر اکابرین شامل ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا مسلک:
 آپ رحمتہ اللہ علیہ نے جسطرح اپنے پیر طریقت کے مسلک تصوف کے سلسلے میں لکھاکہ وہ تصوف میں حضرت جنید قدس سرہ کا مذہب رکھتے تھے۔ اسطرح وہ شریعت میں سنی حنفی ا لمذہب تھے۔جہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا نام پاک لیتے۔ آپ وہاں کامل احترام کو ملحوظ رکھتے، آپ اپنی کتاب کشف المجوب میں امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر اسطرح کرتے ہیں۔ امامِ اماماںمقتدائے سنیاں ، شرف فقہائ، اعزءعلمائ،ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخراز رضی اللہ عنہ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ازواجی زندگی:
آپ کی مشہور زمانہ تصانیف کشف المجوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ نے ایک شادی کی اور جب کچھ مدت کے بعد ان سے مفارقت ہو گئی تو پھر آپ نے تا زیست دوسری شادی نہیں کی۔
مرکز اولالیاء (لاہور) آمد :
جب آپ نے لاہور شہر کا قصد فرمایا اس سلسلہ میں بہت سی دل آویز حکایتیں ہیں۔بس اتنا کہا جاتا ہے کہ وہ دور سلطان مسعود بن سلطان محمود غزنوی( ۱۳۴ھ) لاہور کا حاکم تھا لیکن سال ورودکا تعین دشوار ہے۔
آپ ورودِ مسعود نے لاہور کے قالب میںایک نئی جان ڈال دی ۔آپ کے قیام کے دوران گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتے ہزاروں لوگوں نے آپ سے ہدایت پائی اور ہزاروں مشرکوںکے دلوں سے کلمہ توحید پڑھا کر زنگِ کفر و شرک کو دور فرمایا ۔
شجرہ طریقت:
آپ کا شجرئہ طریقت اس طرح ہے۔ شیخ علی ہجویری مرید شیخ ابو الفضل الختلی مرید شیخ خضری مرید شیخ ابو بکر شبلی مرید حضرت جنید بغدادی مرید شیخ سری سقطی مرید حضرت داو¾د طائی مرید حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیھم مرید حضرت علی رضی ا للہ عنہ۔
علمی کارنامے :
حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ جس طرح بحر طریقت سے روشناس تھے اسی طرح قرآن و حدیث اور فقہ پر بھی کامل دستگاہ رکھتے تھے اور اسرار شریعت سے بھی اسی طرح آگاہ تھے ۔اسلامی تصوف کے دور تبع تابعین میں نظری تصوف نے علمی تصوف کی شکل اختیار کر لی تھی تصوف نے جب علم کی دنیا میں قدم رکھا تو رموزطریقت اور اسرار حقیقت پر بھی قلم اٹھایا گیا۔لیکن اس دور میں اس موضوع پر جو لکھا گےاوہ عربی زبان میں تھا ۔حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ کے معا صرین میں امام ابو القاسم قشیری نے تصوف کے رموز پر جو رسالہ قشیریہ مرتب کیا اس کی زبان بھی عربی تھی ۔فارسی مفتوحین نے جب تصنیف کی دنیا میں قدم رکھا تو انہوں نے بھی اسی زبان عربی کو اختیار کیا جس کی تقدیس کا قرآن و احادیث کی زبان سے اندازہ ہو سکتا ہے ۔مذہبیا ت میںعربی کے سوا کسی اور زبان کو استعمال کرنا تقدیس کے منافی خیال کیا جاتا تھا ۔فارسی نژاد علماءو فضلائے اسلام کی گراں بہا تصانیف اس پر شاہد ہیں ۔ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی مادری زبان بھی فارسی تھی اگرچہ آپ کو عربی زبان پر بھی کامل عبور حاصل تھا لیکن کشف المحجوب عوام کے افادہ کےلئے فارسی میں تصنیف فرمائی۔آپ کی باقی تصانیف فناوبقا،اسرارلخرق والمونات،الرعایت بحقوق اللہ تعالیٰ، کتاب البیان لاہل العیان، نحوالقلوب، منہاج الدین ، ایمان،شر ح کلام منصورحلاج، اور دیوان اشعار تھیں۔
وصال شریف:
آپ کا مزار پر انوار لاہور میں ہے اسی نسبت سے لاہور کو مرکزاولیا¿ بھی کہتے ہیں لاہور کی سر زمین اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے وہ کم ہے کہ ایک ایسی برگزیدہ اور بلند پایا ہستی یہاں آرام فرما ہے جس کی آمد نے ہند کے اس عظیم خطہ میں شمع ایمان فروزاں کی ۔یہی وہ قدسی بارگاہ ہے جہاں خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ بھی اکتساب فیض کے لیے مقیم رہے ۔یہاں کی خاک اکابرین صوفیا کے لیے سرمہ بصیرت اور تاج عزت ہے یہی وہ مقام ہے جو آج تک قبلہ اہل صفا بنا ہوا ہے اور جہاں انوار الہی ہر وقت برستے ہیں۔ یہاں عوام بھی حاضر ہوتے ہیں ۔صوفی اور عالم بھی۔ ہر ایک یکساں عقیدت کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں کی فضا میں ہر وقت اور ہر لمحہ ذکر خدا اور ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جاری وساری رہتا ہے اور داتا صاحب رحمة اللہ علیہ کے فیض سے جھولیاں بھرنے والوں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے۔   ٭

مزید :

اداریہ -