ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے بارے میں نئی پالیسی؟

ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے بارے میں نئی پالیسی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی انتظامیہ کا خیال ہے کہ پاکستان میں طالبان اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے افغانستان پر حملے کرتے ہیں اور دوبارہ منظم ہوتے ہیں اِس لئے ٹرمپ حکومت پاکستان کے متعلق اپنی پالیسی سخت کرنے کا جائزہ لے رہی ہے اِس حوالے سے امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان میں ڈرون حملے بڑھانے اور امداد کم کرنے کے ساتھ پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا رتبہ کم کر سکتی ہے، تاہم بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں اور یہ احکامات لاحاصل ہیں اِس سے پہلے بھی پاکستان کو عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت سے باز رکھنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں،جبکہ بڑھتے ہوئے امریکہ بھارت تعلقات کی وجہ سے بھی پاکستان کے ساتھ کسی پیشرفت کے امکانات کو نقصان پہنچا۔ یہ رپورٹ برطانوی خبر رساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ نے جاری کی ہے۔ رپورٹ میں امریکی وزارتِ دفاع کے ایڈم سٹمپ نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان قومی سلامتی کے مختلف امور میں شراکت دار ہیں۔ خبر رساں ایجنسی نے ایک امریکی افسر کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ ابھی پاکستان کے متعلق پالیسی تشکیل دے رہا ہے جس کا اعلان جولائی میں کیا جائے گا۔ اس افسر کا کہنا تھا کہ اب جو پالیسی تشکیل دی جائے گی اس میں واضح ہو گا کہ ہم پاکستان سے چاہتے کیا ہیں، پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کر رہا ہے ہم اس سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے، افغانستان کی صورتِ حال میں سارا الزام پاکستان کو دینا زمینی حقائق کی نفی ہے، واشنگٹن میں پریس منسٹر عابد سعید کا کہنا ہے کہ سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا درست نہیں۔


امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے متعلق اگر کوئی نئی پالیسی بنا رہی ہے تو اس کے خدوخال سامنے نہیں آئے۔ البتہ افغانستان کے حالات سے واضح ہے کہ وہاں امریکی افواج کی تعداد بڑھائے جانے کا امکان ہے، صدر ٹرمپ نے یہ معاملہ اُن جرنیلوں پر چھوڑ دیا ہے جو افغان امور کی دیکھ بھال کر رہے ہیں تاہم یہ نظر آتا ہے کہ افغانستان کے حالات روزبروز خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیں،دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے اور حساس مقامات بھی اس کی زد میں ہیں۔ گزشتہ روز ہی ایک فوجی قافلے پر حملہ ہوا، بم دھماکے ہوئے اور فائرنگ کے واقعات میں بگرام ایئر بیس کے آٹھ سیکیورٹی اہلکار مارے گئے، یہ ایئر بیس امریکی کنٹرول میں ہے، بم دھماکے میں ایک جج بھی مارا گیا، یہ حالات بتاتے ہیں کہ افغان سیکیورٹی فورسز د ہشت گردی کے واقعات پر قابو نہیں پا سکیں اسی بنا پر وہاں واپس جاتی ہوئی امریکی افواج کو روک لیا گیا ہے اور مزید پانچ ہزار امریکی فوجی تعینات کئے جا رہے ہیں حالات اگر اصلاح پذیر ہوتے تو یہ اقدام نہ کرنا پڑتا۔


امریکی افواج سولہ سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں مقیم ہیں، امریکہ سپرپاور اور اس کی افواج ہر لحاظ سے جدید اسلحے سے لیس ہیں، نیٹو افواج کی بڑی تعداد بھی افغانستان میں موجود رہی ہے، تو پھر کیا وجہ ہے امریکہ اتنے طویل عرصے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا؟ اِس کا تجزیہ امریکی کمانڈروں نے تو کیا ہو گا؟ اگر زمینی حقائق کا درست ادراک کیا گیا ہوتا تو وہ درست نتیجے پر بھی پہنچ جاتے،لیکن لگتا ہے کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھائی گئی ہے۔ امریکہ نے فضائی حملے کر کے طالبان کی حکومت تو مختصر مدت میں ختم کر دی تھی اس کی جگہ اپنی پسند کا حکمران بھی حامد کرزئی کی شکل میں کابل کے تخت پر بٹھا دیا تھا۔ اب اس کی جگہ اشرف غنی نے لے لی ہے، لیکن دونوں صدور اپنی ذاتی حفاظت کے لئے بھی امریکی افواج کے محتاج ہیں۔ حامد کرزئی کا تو اپنا بھائی اُن کی حکومت میں دہشت گردی کا شکار ہو گیا، افغانستان کی موجودہ انتظامیہ میں عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو ہیں،لیکن اُن کے اور صدر اشرف غنی کے باہمی اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اِن حالات میں جو اُن کی پالیسیاں مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہیں تو اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے کے لئے انہیں پاکستان ہی نظر آتا ہے اور وہ یہ گھسا پٹا الزام دُہرا دیتے ہیں کہ دہشت گردوں نے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں جبکہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں کی کمین گاہیں ختم کیں، جہاں بیٹھ کر دہشت گرد خود پاکستان کے اندر حملے کرتے تھے۔
افغانستان کے عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان بھی مشکلات کا شکار ہے اور اُلٹا افغانستان حکومت کی الزام تراشی بھی سہنا اور برداشت کرنا پڑتی ہے، پاکستان میں اس وقت جتنی بھی دہشت گردی ہو رہی ہے وہ سب افغانستان کے حالات ہی کا نتیجہ ہے، اس لئے پاکستان کو سرحد پر ایسے اقدامات کرنا پڑے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کئے گئے، سرحد پر باڑ بھی لگائی جا رہی ہے اور افغانستان سے آنے جانے والوں کو سفری دستاویزات کا پابند بھی کیا جا رہا ہے، اس کے باوجود پاکستان کے اندر حالیہ ایام میں جتنی بھی دہشت گردی ہوئی ان سب میں افغانستان سے آنے والے لوگ ہی ملوث پائے گئے۔ پاکستانی حکام خود ثبوت لے کر کابل گئے


افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو تو کسی نے روکا ٹوکا نہیں،لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ افغان حکومت کابل میں بیٹھے ہوئے امریکی فوجی کمانڈروں کو دن رات یہ باور کراتی رہتی ہے کہ یہ جو افغانستان میں دھماکے ہو رہے ہیں اِن سب کا ذمہ دار پاکستان ہے جبکہ پاکستان نے یہ ساری جنگ تنہا لڑی ہے کولیشن سپورٹ کی مد میں جو امریکی امداد اس عرصے میں پاکستان کو ملی ہے وہ ان نقصانات کا عشرِ عشیر بھی نہیں، جو پاکستان نے اِس جنگ میں اٹھائے ہیں جس جنگ کا آغاز امریکہ نے اس ارادے اور عزم سے کیا تھا کہ بہت جلد اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور دہشت گرد بھی مار دیئے جائیں گے وہ دہشت گردی اب پوری دُنیا کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کو سپر پاور ہونے کے ناتے اس میں اپنا کردار دا کرنا چاہئے،لیکن ہر دوسرے چوتھے مہینے پاکستان کو ’’ڈو مور‘‘ کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ امریکہ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو کام اس کی افواجِ قاہرہ سولہ سال میں نہیں کر سکیں وہ پاکستان پلک جھپکنے میں کیسے کر لے گا۔ پاکستان نے جو کیا اس کا اعتراف برملا ہونا چاہئے۔ اس کے برعکس اگر امریکی انتظامیہ زمینی حقائق کو فراموش کر کے افغان حکام اور بھارت کے پھیلائے ہوئے زہریلے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر خود پاکستان کے خلاف ہی کارروائیاں کرنے پر تُل جائے گی تو اس سے دہشت گردی کی جنگ ہی متاثر ہو گی اور منفی نتائج ہی نکلیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ اگر پاکستان کے بارے میں کوئی نئی پالیسی بنا رہی ہے تو یہ معروضی حقائق کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائے۔

مزید :

اداریہ -