حکومت کو آئینی ترمیم منظور کرانے میں مشکلات

حکومت کو آئینی ترمیم منظور کرانے میں مشکلات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگلے انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل پیر کے روز بھی سینیٹ کے اجلاس میں پیش نہ کیا جا سکا،کیونکہ اجلاس میں صرف40ارکان شریک ہوئے، فاٹا کے تمام، حکومت کے26 اور اپوزیشن جماعتوں کے46 ارکان غیر حاضر رہے، چونکہ ارکان کی دو تہائی اکثریت ایوان میں موجود نہیں تھی جو آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے درکار ہے اِس لئے بل پر کارروائی آگے نہ بڑھ سکی، اس سے پہلے جمعہ کو یہ بل منظور کرانے کا پروگرام تھا، اُس وقت بھی ارکان کی غیر حاضری کی وجہ سے بل پیش نہیں کیا جا سکا تھا، قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کی منظوری دے چکی ہے، جس کے تحت نئی حلقہ بندیاں مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر کرنا مقصود ہے اور اِس مقصد کے لئے آئینی ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں میں اتفاق ہوا تھا،لیکن یہ اتفاق رائے باقاعدہ بل کی منظوری کے وقت ارکان کی حاضری کی صورت میں سامنے نہیں آیا۔
سینیٹ میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے ایوان میں سادہ اکثریت سے بل منظور کرانے کے لئے بھی اسے اپوزیشن جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ پیر کے روز، شراب پی کر غل غپاڑہ کرنے پر سزا سے متعلق فوجداری قوانین کا ترمیمی بل متفقہ طور پرمنظور کر لیا گیا،اِسی طرح حکومت وقتاً فوقتاً اپوزیشن کے تعاون سے دوسرے بِل بھی منظور کراتی رہتی ہے، حلقہ بندیوں کے متعلق آئینی ترمیم پر ایوان سے باہر پارلیمانی پارٹیوں میں اتفاق رائے ہونے کے باوجود کسی نہ کسی وجہ سے بل کی منظوری میں تاخیر ہوتے چلے جانے سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی راہ میں بعض غیر مرئی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، غالباً سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ اس بل کی منظوری سے پہلے حکومت کے ساتھ بعض امور پر سودے بازی کر کے اپنے کچھ ایسے مطالبات منوا لئے جائیں،جو عام حالات میں شائد حکومت ماننے پر تیار نہ ہو اِس لئے اِس موقعہ پر فائدہ اٹھانا مقصود ہو۔اگر ایسی ہی بات ہے تو بھی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو مل بیٹھ کر یہ معاملہ خوش اسلوبی سے سلجھا لینا چاہئے۔
قومی اسمبلی کی مدت اگلے برس31 مئی کو پوری ہو رہی ہے، جس کے بعد نئے انتخابات کے لئے نگران حکومت کا قیام ضروری ہے، نئے انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیوں کا کام مردم شماری کے بعد بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر نئے انتخابات نہیں ہو سکتے اِس لئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر یہ کام تیزرفتاری سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض اہم سیاسی رہنما انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، جبکہ قومی مفاد اس میں ہے کہ انتخابات بروقت ہوں تاکہ نئی حکومتیں تشکیل پا کر نئے جذبے سے کام شروع کر سکیں،کیونکہ اِس وقت ملک ایک بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے، مختلف گروہ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور لاکھوں شہریوں کو طرح طرح کے طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے،جو ایشوز طے پا چکے ہیں اُنہیں بھی دوبارہ چھیڑ کر بے اطمینانی پیدا کی جا رہی ہے ،جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس بے یقینی کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب آئین کی منشا کے مطابق بروقت نئے انتخابات انعقاد پذیر ہو جائیں اور اُن میں جس پارٹی (یا پارٹیوں) کو مینڈیٹ ملے وہ قومی امور کو نپٹانے کے لئے آگے بڑھے۔
اس وقت اندرونِ مُلک ہی بے یقینی کی کیفیت نہیں ہے سرحدوں پر کشیدگی برقرار ہے،بھارت روزانہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر اشتعال انگیز کارروائیاں کر رہا ہے،امریکہ اُسے افغانستان میں وسیع تر کردار سونپنے کی باتیں کر رہا ہے، افغانستان کا عدم استحکام پاکستان کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے، بلوچستان میں اعلیٰ پولیس افسروں کو نشانہ بنا کر لوگوں میں اضطراب پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں،کراچی میں جو امن طویل عرصے کے بعد لوٹ کر آیا تھا اُسے ختم کرنے کی سازشیں بھی جاری ہیں،دھرنا کلچر کی وجہ سے قومی زندگی پر جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ انتہائی منفی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ چند سو یا ہزار دو ہزار لوگوں کا گروہ بھی حکومت کو بے اثر بنا کر پوری دُنیا میں اس کا امیج مجروح کر سکتا ہے ایسے میں کوئی حکومت پیچیدہ عالمی مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے، کہ ایسے کردار کے لئے تو حکومت کی اندرونی بنیاد مضبوط ہونی چاہئے۔
سینیٹ میں حلقہ بندیوں کے بل میں تاخیر کی وجہ سے نئے سوالات جنم لے رہے ہیں، اِس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر مشاورت کر کے تمام جماعتوں کو آن بورڈ لائے اور بل منظور کرائے۔ اگر سینیٹ میں حکومت کے اپنے ارکان ہی غیر حاضر ہوں گے تو اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کس طرح شریک ہوں گے وہ تو چاہیں گے کہ حکومت کو قانون سازی کے معاملے میں خفت کا سامنا کرنا پڑے تاکہ اُنہیں یہ کہنے میں آسانی رہے کہ حکومت کی کوئی رٹ باقی نہیں،اِس لئے اسے مستعفی ہو جانا چاہئے۔قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تو یہ مطالبہ داغ بھی دیا ہے، اگر حکومت کو اِسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہو گا تو ایسے مزید مطالبات بھی سامنے آتے رہیں گے، تحریک انصاف تو پہلے ہی قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اس کی تائید کر رہے ہیں،حالانکہ مشترکہ مفادات کی کونسل(سی سی آئی) کے حالیہ اجلاس میں وقت مقررہ پر انتخابات پر اتفاق موجود تھا۔
حکومت کو اگر سینیٹ میں بل منظور کرانے میں کسی حقیقی رکاوٹ کا سامنا ہے،جس پر وہ اختیار نہیں رکھتی تو اس کا حل یہ ہے کہ پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس بُلا کر حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل منظور کرا لیا جائے۔ یہ عین آئینی طریقہ ہے اور کسی کو اس پر اعتراض بھی نہیں ہو گا،لیکن ایسا نہ ہو حکومت کے ارکان مشترکہ اجلاس سے بھی غیر حاضر ہو جائیں اور ایک بار پھر حکومت کی سُبکی کا باعث بنیں،وزیراعظم کو تمام تر صورتِ حال کا جائزہ لے کر پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے پر غور کرنا چاہئے۔اس وقت جو صورتِ حال ہے اُس سے حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) اور خود حکومت کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے یہ سلسلہ جاری رہا تو اس میں اضافہ ہی ہو گا، کمی نہیں آئے گی۔

مزید :

اداریہ -