بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور صارفین کی مشکلات

بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور صارفین کی مشکلات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی اجازت دے دی ہے۔ حالیہ اضافے کے لئے نیپرا اور وزارت پانی و بجلی کے درمیان بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے مستقل ڈیفالٹرز کے ذمے واجب الادا 24ارب کی مشروط وصولی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ڈیفالٹرز کے ذمے واجب الادا رقوم 235 ارب ہیں، جن کی وصولی کی اجازت نہیں دی گئی۔ فی الحال بجلی 48پیسے فی یونٹ مہنگی کی گئی ہے۔ اب ہر صارف کو (اضافی قیمت کے ساتھ) بجلی 3.90 روپے فی یونٹ ملا کرے گی۔حکومت کی طرف سے بجلی کے صارفین کے لئے مختلف اوقات میں جو رعایتیں دی گئی ہیں، وہ برقرار رہیں گی، بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے پر 60پیسے فی یونٹ اضافہ ہو گا، جبکہ 300یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو ایک روپیہ پچاس فی یونٹ اضافہ برداشت کرنا پڑے گا۔ بجلی کے نرخوں میں بنیادی اضافے کا جواز کس حد تک درست ہے، اس پر بحث کی بجائے بجلی کے صارفین کو زیادہ دلچسپی اِس حوالے سے ہو گی کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد انہیں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے کب تک نجات مل سکے گی،کیونکہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی کے علاوہ دفتری نظام بھی درہم برہم ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت نے مختلف توانائی منصوبوں کو ہنگامی طور پر شروع کر کے بجلی کی پیداوار میں خاصا اضافہ ممکن بنایا ہے۔ گیس اور کوئلے کے کئی منصوبے ابھی زیر تکمیل ہیں۔ حکومتی کوششوں سے رواں سال میں لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔ یہ صورتِ حال بڑے شہروں کی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں لوڈشیڈنگ میں بڑے شہروں کے مقابلے میں یکساں کمی نہیں ہوئی۔ کئی علاقوں میں لوگ دہائی دیتے رہے ہیں کہ انہیں18 سے 20 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کچھ علاقوں میں لوگ کئی کئی دن اِس لئے بھی بجلی کی سہولت سے مستقل محروم رہتے ہیں کہ جل جانے والے ٹرانسفارمروں کی فوری مرمت نہیں ہوتی۔ بار بار جب لوگ احتجاج کرتے ہوئے ٹائر جلاتے ہیں اور سڑکوں پر دھرنا دے کر متعلقہ حکام کی توجہ حاصل کرتے ہیں تو ان کا مسئلہ حل ہوتا ہے۔ تاہم مسلسل کئی روز تک ان علاقوں میں بجلی نہیں ملتی۔ لوگ عموماً شکایت کرتے ہیں کہ انہیں بجلی کی سہولت تو ملتی نہیں اور بل باقاعدہ وصول کیا جاتا ہے۔ لائن لاسز اور کنڈے ڈال کر مفت بجلی حاصل کرنے والوں کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان وزارت پانی و بجلی کو برداشت کرنا پڑتا ہے، جبکہ بہت سے ایسے صارف بھی ہیں، جو بل وصول کرنے کے بعد ادائیگی نہیں کرتے۔ ان علاقوں میں بجلی کی متعلقہ کمپنیوں کے افسران اور اہلکار بجلی کی سہولت ختم کرنے کے لئے میٹر اُتارنے جاتے ہیں تو اُنہیں دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ایسے تمام لائن لاسز کو بل باقاعدگی سے ادا کرنے والوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں صارفین مہنگی بجلی آسانی سے برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کے لئے صورتِ حال بہتر بنانا پڑے گی۔ بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے سے ایک سو یونٹ استعمال کرنے والے کو ماہانہ 160روپے اضافی بل ادا کرنا ہو گا، جبکہ 300 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین 450 روپے کا اضافہ برداشت کریں گے۔صارفین بجا طور پر مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اُنہیں لوڈشیڈنگ سے مستقل نجات ہونی چاہئے اور لائن لاسز ان کے کھاتے میں نہ ڈالے جائیں۔ حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مزید :

اداریہ -