دشمن باہر نہیں،ہمارے اندر موجود ہے

دشمن باہر نہیں،ہمارے اندر موجود ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اتوار کو پریس کانفرنس کے دوران خطا ب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہر پاکستانی کی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اچھی طرح سے جان لے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ یہ سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے بلکہ دشمن ہمارے درمیان موجود ہے جو ہمارے ہی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ دہشت گرد سانحہ پشاور جیسی ایک اور کارروائی کی تیاری میں ہیں، ایسی خفیہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان نے کبھی خواتین اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا ورنہ میرانشاہ پر بمباری کر کے اب تک اسے مکمل تباہ کیا جا چکاہوتا، اگر خواتین اور بچوں کو نقصان پہنچانا ہوتا تو دہشت گردوں کے خاندان آرام سے نہ رہ رہے ہوتے۔انہوں نے واضح کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کو ایک ہفتے کا وقت دیا گیا تھا اس لئے رات دن کام ہو رہا ہے،دو سے تین دنوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سفارشات قوم کے سامنے رکھ دی جائیں گی۔اس کے علاوہ انہوں نے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، موبائل کمپنیاں غیر قانونی سمیں جاری نہ کریں، ہوٹل مالکان بغیر مکمل کوائف کے پیسوں کی خاطر کمرے کرائے پر نہ دیں، تندور والا زیادہ روٹیاں لے جانے والے پر نظر رکھے۔انہوں نے میڈیاکو بھی موثر کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔
اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آسان نہیں ہے۔دہشت گرد کب ، کہاں اور کیسے وارکرجائیں کوئی نہیں جانتا،ان کا ٹھکانہ کہیں بھی ہوسکتا ہے ۔ دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جتنا بھی موثر لائحہ عمل مرتب کر لیا جائے جب تک ہر شہری اس کو اپنی جنگ نہیں سمجھے گا تب تک اس عفریت سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا۔ آپریشن ضرب عضب دہشت گردوں کو ختم کرنے میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے ،لیکن اس کو صرف پاک فوج اور حکومت کی ذمہ داری نہیں سمجھا جا سکتا۔ دہشت گرد کوئی ’’درآمد شدہ‘‘ تخریب کار نہیں ہیں، بلکہ یہ تو ہمارے ہی لوگ ہیں،پاکستانی ہیں، ہمارے ہی درمیان موجود ہیں۔جب بھی دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں کی تحقیقات ہوئیں، چاہے وہ مہران ائیر بیس پر حملہ ہویاجی ایچ کیو یاپھر نیول ڈاکیارڈ کو نشانہ بنانے کی بات ،اس میں اندرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کی کہانی ہی سامنے آئی ۔یہاں تک کہ پاکستانی تاریخ کی بدترین دہشت گردی جو پشاور کے سکول میں کی گئی وہاں بھی لیب اسسٹنٹ رابطہ کار نکلا۔ دشمن تو اپنے پن کا لبادہ اوڑھے ہماری اپنی ہی صفوں میں موجود ہے،چور تو ہماری اپنی بغل میں ہے۔ حقیقت ہے کہ سرحد پار دشمن کا مقابلہ کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ اعلانیہ دشمنی کرتا ہے، کہیں چھپا نہیں ہوتا، لیکن جو ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں ،ایسے لوگوں سے نبرد آزما ہوناسب سے بڑا چیلنج ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ ملک دشمن عناصرنام نہاد انقلاب اور اسلام کے نام پر لوگوں کو ورغلاتے ہیں،غلط راستہ دکھاتے ہیں،ایساراستہ جو ملک و قوم کو صرف تباہی کی طرف لے کر جاتا ہے اورایسے گروہوں نے منظم ہو کر ہمیشہ تباہی کی راہ ہی دکھائی ہے۔ اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اپنوں کی غداری کی وجہ سے ہی نقصان اٹھانا پڑا، میر جعفر باہر سے نہیں آئے بلکہ ہم میں ہی موجود تھے اور ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان کا سر کچل دیا جائے۔ یہ دہشت گرد مذہب کے نام پر لوگوں کی جان سے کھیل رہے ہیں،ان کو بیوقوف بنا رہے ہیں، بندوق کے زور پر اپنا نام نہاد نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں، دوسروں کی اپنی مرضی کے مطابق اصلاح کرنا چاہتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ کہتے ہیں ،وہ اصلاح کرنے والے ہیں لیکن دراصل وہی فساد پھیلانے والے ہیں۔
وزیر داخلہ نے ملک کے ہر شہری سے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی جو اپیل کی ہے اس پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔مشکوک افراد کی اطلاع دینے کیلئے جو مخصوص فون نمبر جاری کئے گئے انہیں اپنے پاس محفوظ رکھیں اور دوسروں کو بھی دیں،اپنے اردگرد لوگوں پر نظر رکھیں، چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظر انداز نہ کریں۔اس وقت ہر پاکستانی کے کندھے پر بھاری ذمہ داری ہے اور اس سے کوئی بھی منہ نہیں موڑ سکتا، ہم سب کو مل کر اپنے بیچ چھپے چہروں کو ڈھونڈناہے، چند روپوں کی خاطر ملک کی سلامتی کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ہمیں ان لوگوں کو ورغلانے والوں کو پکڑنا ہے،ان کی تربیت کرنے والوں کوروکنا ہے ،اصل ذمہ داران کو سامنے لا کر ان کا منہ کالا کرنا ہے تاکہ پوری دنیاہمیں ایک قوم کی حیثیت سے جانے اور یاد رکھے۔ یہ سب باتوں اورتقریروں سے نہیں ہو گا، اس کے لئے جان لڑانی ہو گی، قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا، اپنی ذمہ داری سمجھنی ہو گی اور اپنی اصلاح خود کرنی ہوگی۔ پاکستان کو اپنا’ حقیقی‘ گھر سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کا بیڑہ ہمیں خود ہی اٹھانا ہوگا۔
کراچی اور بلوچستان میں بجلی کا تعطل
پنجاب اور خیبرپختون خوا کی طرح کراچی ا ور بلوچستان نے بھی بجلی کی طویل بندش کی پریشانی اٹھائی ہے اور مرکزی ٹرانسمیشن کی ٹرپنگ کی وجہ سے کراچی اور آدھا بلوچستان تاریکی میں ڈوب گیا۔ یہ سلسلہ بھی 8 سے دس گھنٹے جاری رہا، اور بتدریج بجلی بحال کی گئی۔ یہاں بھی وہی الزام اور جواب الزام کا سلسلہ شروع ہے جو پنجاب اور خیبرپختونخوا کو اندھیرے سے روشناس کرانے کے بعد یہاں بھی ہوا تھا۔ بجلی کی بحالی کو اولیت قرار دے کر تحقیقات کرانے اور ذمہ دار کو سزا دینے کا اعلان کیا گیا لیکن اس تحقیقات کا تو کچھ علم نہیں ہو سکا البتہ یہ نیا بریک ڈاؤن ہو گیا ۔کراچی کی حد تک توبجلی سپلائی کمپنی کی نجکاری کی جا چکی ہے اور اس شہر کو روشن رکھنے کی ذمہ دار کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ہے جبکہ باقی ذمہ داری حیدر آباد سپلائی کمپنی کی تھی۔ ہر دو کی طرف سے مین ٹرانسمیشن کی ٹرپنگ تسلیم کی گئی اور ذمہ داری نیشنل گرڈ والوں کی قرار دی گئی ہے، یہ تو محکموں کی اپنی چپقلش ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی لیکن اس سے عوام کو روشنی کے علاوہ پانی کے حصول میں بھی مشکلات پیش آئی ہیں جو عوام کے ساتھ بیت گئی اس کا ازالہ کون کرے گا؟بجلی کی قلت ہے جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا بھی سامنا ہے اوپر سے ایسے حادثات ہونے لگے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حادثات کی صحیح وجوہ کا سراغ لگا کر عوام کو حالات سے آگاہ کیا جائے اور اگر کسی کی غفلت، لاپر واہی یا نا اہلیت ہے تو اسے سزا دی جائے کہ آئندہ ایسے حادثات نہ ہو سکیں۔
شاہد آفریدی، اچھا فیصلہ!
بوم بوم شاہد آفریدی نے ٹیسٹ کرکٹ کے بعد ایک روزہ انٹرنیشنل کرکٹ سے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا وہ کہتے ہیں اگلے سال فروری، مارچ میں ہونے والے ورلڈ کپ کے اختتام پر ایک روزہ کرکٹ بھی چھوڑ دیں گے اور صرف ٹی 20 کرکٹ کھیلیں گے۔ شاہد آفریدی اس ٹیم کے کپتان ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات میں مسلسل تین میچوں کی کپتانی کے فرائض بھی انہوں نے انجام دیئے، یہ قائم مقام تو ان کو دوسرے میچ ہی میں مل گئی تھی جب مصباح الحق ہیمسٹرنگ کا شکار ہوئے تھے۔شاہد آفریدی کے اس فیصلے کو سینئر کھلاڑیوں نے سراہا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ وہ کھیل کی بلندی پر میدان خالی کر رہے ہیں کہ ان کی جگہ کوئی دوسرا لے سکے۔
شاہد آفریدی کے اس قبل از وقت اعلان نے شائقین کو بھی حیران کیا ہے اور ان کے چاہنے والوں کو صدمہ ہوا وہ انہیں مزید کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہر حال یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے بشرطیکہ وہ پہلے کی طرح پھر سے واپسی کا اعلان نہ کر دیں جہاں تک شاہد آفریدی کے کھیل کا تعلق ہے تو اس میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں ان کی کرکٹ میں آمد دھوم دھڑکے والی تھی اور اوپننگ کھلاڑی کی حیثیت سے انہوں نے بہت دھوم مچائی۔ ان کے حصے میں بہت سے ریکارڈ بھی ہیں اور ان کے کھیل کی تعریف بھی ہوتی تھی۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے ان کی بیٹنگ پرفارمنس پر سوالیہ نشان لگا ہوا تھا اور وہ ساتویں اور آٹھویں نمبر پر کھیلنے والے رہ گئے تھے اور اس نمبر پر بھی ان کا تکا لگ جاتا تو کچھ سکور کر لیتے تھے۔ بہر حال باؤلنگ کے سہارے وہ ٹیم میں جگہ بنائے رہے اور کبھی کبھار کھوٹے سکے کی طرح کام آ جاتے۔ شاہد آفریدی کا کیریئر تنازعات سے بھی بھرا پڑا ہے اور اس کی بہترین خواہش اور کوشش قومی ٹیم کا کپتان بننے کی تھی جو اب متحدہ امارات میں نیوزی لینڈ کے خلاف پوری ہو گئی اور وہ از خود نائب کپتان کی حیثیت اختیار کر گئے۔
ورلڈ کپ کے حوالے سے مجوزہ ٹیم کے لئے وہ کپتان کی حیثیت اختیار کرنے کی درپردہ کوشش بھی کرتے رہے لیکن کرکٹ بورڈ کے اس حتمی فیصلے کے بعد کہ ورلڈ کپ تک کپتان مصباح الحق ہی رہیں گے ان کی یہ خواہش پوری ہونا ممکن نہ رہا کہ وہ اس عالمی کپ کے لئے ٹیم کی قیادت کریں۔ شاہد آفریدی نے از خود اعلان کیا توقع کی جاتی ہے کہ اس بڑے ٹورنامنٹ کے بعد مصباح الحق بھی ان کی پیروی کریں گے ٹیم میں ان دونوں کے متبادل شامل کرنا ہوں گے۔ شاہد آفریدی کو داد دینا اور ان کو ہار پہنا کر رخصت کرنا چاہئے کہ بہر حال ٹیم کے لئے بھی ان کی پرفارمنس ریکارڈ پر موجود ہے اور اپنے چھکوں کی وجہ سے بوم بوم بھی وہی ہیں۔ ایک خاص مشق اور طریقے کے تحت محمد حفیظ نے از خود رضا کارنہ طور پر ٹی 20 ٹیم کی قیادت سے معذرت کر لی تھی کہ وہ دباؤ برداشت نہ کر سکے اب آفریدی کے پاس قیادت ہے اور وہ اس فارمیٹ کے لئے کھیلتے رہیں گے۔شاہد آفریدی کی شاندار کارکردگی پر ان کو خراج تحسین اور اس فیصلے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اب بورڈ کو پوری توجہ ورلڈ کپ کی طرف مبذول کرنا چاہئے کہ کم از کم ڈریسنگ روم میں اب دو کپتان نہیں ہوں گے مصباح الحق کی پوزیشن مستحکم ہے اور ان کو قومی وقار بڑھانا ہوگا۔

مزید :

اداریہ -