شہروں سے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے سیاسی فیصلوں کا وقت
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ شہروں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے سیاسی فیصلے کئے جائیں، دہشت گردوں کے خلاف جنگ آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ پُرامن اور محفوظ پاکستان ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے، آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی سے شہری علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مکمل کامیابی کے لئے قوم کا تعاون نہایت ضروری ہے، کوئٹہ کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے حقیقی اور پائیدار اختتام کے لئے سیاسی قبولیت کا ماحول بن رہا ہے۔ خطرات سے نپٹنے کے روایتی طریقے اب کارآمد نہیں رہے، پاکستان کو درپیش سلامتی کے خطرات پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہیں۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کوئی ایک سال پہلے ہوا تھا اور اب یہ آپریشن اختتام کے قریب ہے۔ اس علاقے سے دہشت گرد یا تو ختم ہو گئے ہیں یا جنہیں موقع مل سکا وہ علاقے سے چلے گئے ہیں، ممکن ہے کچھ لوگ افغانستان جانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں، علاقے میں آئی ڈی پیز کی واپسی شروع ہو چکی ہے۔اگرچہ ان متاثرہ لوگوں کو اپنے گھروں میں پوری طرح آباد ہونے کے لئے ابھی وقت لگے گا اور حکومت کو بھی اس کام کے لئے بھاری سرمایہ درکار ہے،لیکن اُن کی آباد کاری کا آغاز ضرور ہو چکا ہے، ان لوگوں نے آپریشن کی کامیابی میں اپنا بالواسطہ حصہ ڈالا، کیونکہ اپنے گھر بار چھوڑ کر انہیں کیمپوں میں گزر بسر کرنا پڑی، موسم کی سختیاں برداشت کرنا پڑیں یا پھر محدود تعداد میں لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب کے ہاں قیام کرنا پڑا، آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے اثرات پورے مُلک پر مثبت مرتب ہوئے ہیں اور شہروں میں دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ رُک گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اِکا دُکا وارداتیں اب بھی ہو جاتی ہیں، جن میں بعض بڑی اور افسوسناک وارداتیں بھی ہیں۔ حال ہی میں کراچی کی صفورا چورنگی میں بس مسافروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور46 افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا، لیکن تین دن کے اندر پولیس نے ملزموں کا سراغ لگا کر انہیں گرفتار کر لیا، جن سے تفتیش کے دوران مزید وارداتوں کا سراغ مل گیا اس طرح آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیوں کا جو تسلسل شہروں تک پھیلا ہے وہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی طرف رہنمائی کرے گا۔
آپریشن ضربِ عضب کے دوران شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور تربیتی مرکز ہی تباہ نہیں ہوئے، خود کش جیکٹیں اور اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں بھی نیست ونابود کر دی گئی ہیں جہاں سے تربیت یافتہ دہشت گرد اور اسلحہ و گولہ بارود پورے مُلک کو سپلائی ہوتا تھا، اب چونکہ یہ سپلائی لائن بند ہو گئی ہے اور دہشت گردوں کی تربیت کا سلسلہ بھی محدود ہو گیا ہے تو باقی ماندہ مُلک میں دہشت گردی کی وارداتیں کم ہو گئی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے علاوہ خیبر ایجنسی کے قبائلی علاقے میں بھی دہشت گردی کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، وہاں بھی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک تباہ کئے گئے ہیں اس لئے شہر نسبتاً زیادہ محفوظ ہو گئے ہیں۔ اگرچہ کلی طور پر شہروں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے بعض سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے، جن کی طرف جنرل راحیل شریف نے توجہ دلائی ہے۔
کراچی جیسے بڑے کاسمو پولیٹن شہر میں زندگی میں زیادہ رنگا رنگی ہے، وہاں غیر ملکی بھی بڑی تعداد میں موجود ہی، جن میں سے ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہو گی جن کا قیام قانونی ہے اور وہ اپنے عزیزوں یا جان پہچان والے لوگوں کی وجہ سے کراچی رہتے ہیں۔ کراچی ایک گنجان آباد اور وسیع شہر ہے اور بعض علاقوں میں تو چلتے پھرتے احساس ہوتا ہے کہ ایسے علاقوں میں دہشت گردوں کے لئے چھپنا اور وارداتیں کرنا آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی طویل عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے اور آپریشن کے دوران بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہو جاتی ہیں تاہم اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انٹیلی جنس شیئرنگ کا مربوط نظام بنائیں اور اس کے تحت کارروائیاں کریں تو ان کے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ کراچی بس فائرنگ کے ملزم بہاولپور سے گرفتار ہوئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ واردات کے بعد یہ ملزم اپنا ٹھکانہ بدل لیتے اور نسبتاً چھوٹے یا پھر دور دراز کے شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک کسی نہ کسی طرح مُلک کے کئی شہروں تک وسیع ہو چکا ہے اس لئے صوبائی حکومتوں کو بھی رابطے کا ایک بہتر نظام قائم کرنا چاہئے تاکہ کسی ایک صوبے میں واردات کے بعد ملزم دوسرے علاقوں میں پناہ لینے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ اس بات کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ بڑے شہروں میں ناکامی کے بعد اب مایوس دہشت گرد نسبتاً چھوٹے شہروں کا رُخ کریں یا ایسے علاقوں میں روپوش ہونے کی کوشش کریں جو اب تک محفوظ تصور کئے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں وزارتِ داخلہ کا کردار زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے، جو پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے۔ وزارتِ داخلہ کو صوبوں کے تعاون سے ایسی پالیسی بنانی چاہئے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے بدلنا اور نئی کمین گاہیں بنانا ممکن نہ رہے۔ جنرل راحیل شریف نے جن سیاسی فیصلوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور آپریشن ضربِ عضب کے مثبت اثرات سے اب ایسے فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے، اس لئے حکومتوں کو آگے بڑھ کر ایسے اہم فیصلے کر لینے چاہئیں، جن پر عمل کر کے دہشت گردی کا کلی خاتمہ ہو سکے اور مُلک امن وامان کا گہوارہ بن سکے۔