عام انتخابات ہر حال میں بروقت ہونے چاہئیں
مسلم لیگ(ف) کے صدر پیر صاحب پگارو نے کہا ہے کہ2018ء کے انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے اور اگر انتخابات کرائے گئے تو گلی گلی خون خرابہ ہو گا، حالات بہتر نہ ہوئے تو مُلک کو نقصان ہو گا۔انہوں نے سندھ کے سینئر سیاست دان میر ممتاز علی بھٹو سے ملاقات کی اور کہا سندھ میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس عوام کی آخری امید ہے۔ اس موقعہ پر بات چیت کرتے ہوئے ممتاز بھٹو کا کہنا تھا موجودہ طرزِ حکمرانی عوام کو پسند نہیں،دس برسوں میں حکومت میں رہنے والوں نے عوام کو کیا دیا،امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق نے صوابی میں ایک عام جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا انتخاب سے پہلے احتساب مکمل کیا جائے،بہت سے دوسرے سیاست دانوں کے بیانات بھی منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں جن میں اُن کا فرمانا ہوتا ہے کہ وہ وقتِ مقررہ پر انتخابات نہیں دیکھ رہے،ان میں سے بعض انتخابات کے التوا کے مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں مروج آئین کے تحت موجودہ حکومت کی مدت5 جون2018ء کو مکمل ہو جائے گی اِس مدت کی تکمیل سے پہلے یا فوری بعد عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہے تاکہ عوام اگلی پانچ سالہ مدت کے لئے اپنے نمائندے منتخب کر سکیں اور نئی حکومت تشکیل پا سکے۔عمران خان تو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں اور اُن کا یہ خیال ہے کہ موجودہ حالات پر قابو پانے کے لئے فوری طور پر انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، آئین کے تحت وزیراعظم کا یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں جو48گھنٹوں کے اندر وزیراعظم کے مشورے پر اسمبلی توڑنے کے آئینی طور پر پابند ہیں،بصورتِ دیگر یہ مدت پوری ہونے کے بعد اسمبلی خودبخود ختم ہو جاتی ہے،لیکن اس وقت قومی اسمبلی میں وزیراعظم کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور پارلیمینٹ کے اندر اُنہیں بظاہر کوئی چیلنج بھی درپیش نہیں،اِس لئے وہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی انتخابات کرانا چاہیں گے، ویسے بھی الیکشن کمیشن کو تیاریوں کے لئے وقت چاہئے،مردم شماری بھی ہوئی ہے، جس کے تحت نئی حلقہ بندیاں تشکیل پائیں گی،اگلے آٹھ نو ماہ تو تیاریوں کے لئے درکار ہوں گے اِس لئے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ معروضی حالات میں پورا ہونے کا امکان نہیں اور یہی امید کی جا سکتی ہے کہ انتخابات وقتِ مقررہ پر ہی ہوں گے۔
جو سیاسی رہنما تواتر کے ساتھ یہ بیان دے رہے ہیں اور جن میں تازہ اضافہ پیر صاحب پگارو کا ہُوا ہے اُن سے البتہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیوں انتخابات ہوتے نہیں دیکھ رہے؟کون سے ایسے حالات ہیں جن سے وہ یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ انتخابات وقتِ مقررہ پر نہیں ہوں گے،حالانکہ دُنیا میں بہت ہی برے حالات میں بھی انتخابات وقتِ مقررہ پر ہو جاتے ہیں۔ایران اور عراق کی ساڑھے آٹھ سالہ جنگ کے دوران ایران میں دو بار عام انتخابات ہوئے،وہاں بھی بہت سے لوگ یہ مشورہ دینے والے تھے کہ موجودہ حالات میں انتخابات کا رسک نہ لیا جائے،لیکن بالغِ نظر ایرانی قیادت نے ایسے تمام مشورے مسترد کر دیئے اور وقت پر انتخابات ہوتے رہے،پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی عین حالتِ جنگ میں انتخاب بھی ہوئے،بلکہ حکومتیں تک تبدیل ہوئیں۔برطانیہ دوسری جنگِ عظیم کے فاتح ممالک میں شامل تھا،لیکن جنگ کے دور میں وزیراعظم رہنے والے چرچل جنگ کے فوراً بعد ہونے والا انتخاب ہار گئے،کیونکہ برطانوی عوام کی اس وقت رائے یہ تھی کہ جنگ کے دور کے بعد اب ایک ایسے وزیراعظم کی ضرورت ہے جو مُلک کو جنگ کی دی ہوئی تباہ کاریوں سے نکالے۔
امریکہ کا انتخابی نظام تو اتنا شاندار ہے کہ صدارتی انتخاب ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں مقررہ دن پر ہی ہوتے ہیں،اس کے ساتھ ہی ایک تہائی سینیٹ کے انتخابات بھی ہوتے ہیں اور ایوانِ نمائندگان کا انتخاب ہر دو سال بعد ہوتا ہے جسے مڈ ٹرم الیکشن کہتے ہیں، بعض ریاستوں کے گورنروں کے انتخابات بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں،2012ء کے صدارتی انتخابات سے پہلے امریکہ کی بعض ریاستوں میں شدید طوفان آیا تھا، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی۔صدر اوباما اپنی انتخابی مہم چھوڑ چھاڑ اور بھول بھلا کر تباہ شدہ ریاستوں کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے، بعض حلقوں نے اِس حالت میں انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ دیا، لیکن اِس مشورے کو امریکی انتخابی روایت کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ ڈیمو کریٹس کو خطرہ تھا کہ طوفانی تباہ کاریوں کی وجہ سے اوباما دوسری ٹرم کا انتخاب ہار جائیں گے،لیکن نہ صرف انتخابات مقررہ دن پر ہوئے،بلکہ وہ جیت بھی گئے۔پیر صاحب پگارو سندھ کی روحانی شخصیت ہیں ان کے مریدوں کی تعداد بھی بہت ہے،اُن کا سیاسی اثرو رسوخ بھی ہے،وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اُنہیں انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے تو ممکن ہے اُن کی دوربین نگاہوں نے کوئی ایسا منظر دیکھ لیا ہو یا روحانی طور پر اُنہیں کوئی اشارہ ہوا ہو،جو بھی صورت ہو اُنہیں تفصیل سے قوم کو بتانا چاہئے کہ انتخاب آخر کیوں مقررہ وقت پر نہ ہوں گے اور اگر ہو جائیں تو اُنہیں کس نے بتایا ہے کہ اِن انتخابات میں خون خرابہ ہو گا؟اب سوال یہ ہے کہ موہوم خطرات اور نادیدہ خدشات کی بنا پر آخر انتخابات کیوں ملتوی ہوں اور کسی ٹھوس وجہ کے بغیر اس قسم کے خدشات کے اظہار کے پسِ پردہ کیا مقاصد پوشیدہ ہیں؟
انتخابات سیاسی عمل کا ناگزیر حصہ ہیں اور مقررہ مدت کے بعد بہرحال اِن کا انعقاد یقینی بنایا جانا چاہئے،اس وقت مُلک کے حالات تو بہت بہتر ہیں ہم تو دہشت گردی کی ایسی خونی لہر سے گزر کر آئے ہیں جب ہر روز مُلک کے کسی نہ کسی حصے میں دھماکے ہو جاتے تھے اور دہشت گرد ہر جگہ دندناتے پھرتے تھے،خوف و دہشت کی ایک فضا تھی، جس نے پورے مُلک کو گھیرے میں لے رکھا تھا،یہ عرصہ کئی سال پر محیط رہا،لیکن پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کی وجہ سے اِس پر قابو پا لیا گیا،اب حالات بہت بہتر ہیں،دہشت گردی کم ہو گئی ہے،دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیئے گئے ہیں اُن کی کمین گاہیں تباہ و برباد کر دی گئی ہیں اور یہی بات ہم روزانہ امریکہ اور دوسرے ممالک کو بتاتے ہیں،اس کے مقابلے میں ہمسایہ مُلک افغانستان میں عدم استحکام ہے اور دہشت گردی کی تازہ لہر نے کابل اور دوسرے شہروں میں افغان سرزمین کو لہولہان کر رکھا ہے۔اگر کوئی سیاسی جماعت یا سیاست دان انتخابی شکست کے خوف سے انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتا اور اس کو یہ خیال پسند آتا ہے کہ کوئی غیر منتخب حکومت بن جائے،یا نام نہاد قومی حکومت بنا دی جائے یا ٹیکنو کریٹس کے نام پرکوئی غیر آئینی ڈھانچہ کھڑا کر دیا جائے تو ایسے سیاست دانوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ سیاست کو خیر باد کہہ دیں،بعض سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو انتخابات کے نتیجے میں کبھی برسر اقتدار نہیں آ سکتیں، اِس لئے اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی غیر جمہوری سیٹ اَپ بن جائے، جس میں اُنہیں بھی شریک ہونے کا موقع مل جائے،بعض لوگ قومی حکومت کا انتظار بھی اِسی لئے کر رہے ہیں کہ اُن کا خیال ہے کہ اس طرح اُن کی لاٹری نکل آئے گی،لیکن وقتِ مقررہ پر انتخابات نہ صرف آئینی ضرورت ہے،بلکہ اس روایت کو پختہ تر کرنا چاہئے تاکہ غیر آئینی راستوں سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہش کے آگے بند باندھا جا سکے۔
جہاں تک سراج الحق کا یہ کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے احتساب مکمل کیا جائے تو وہ کوئی نئی بات نہیں کر رہے،ماضی میں بہت سے سیاست دان یہ مطالبہ کرتے رہے اور بالآخر اُنہیں ہی اس کا سیاسی نقصان ہوا، جو سیاست دان انتخاب کے بغیرکسی اُنگلی کے اشارے سے حکومت میں آنے کی سوچ اور خواہش رکھتا ہے اس کے لئے تو یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے،انتخابات ہر حالت میں وقتِ مقررہ پر ہونے چاہئیں۔ البتہ وزیراعظم کا قبل از وقت انتخاب کا اعلان کر دینا عین جمہوری اور آئینی ہے،اس کے سوا جو بھی راستے ہیں وہ سب ماورائے آئین ہیں اور سیاست دان کہلانے والوں کو ایسے کسی دام میں نہیں پھنسنا چاہئے۔پیر صاحب پگارو بھی اپنی رائے پر نظرثانی کریں، انتخابات دس سال بعد بھی ہوں،انہیں تو اتنی اکثریت ملنے والی نہیں کہ وہ یا اُن کا نمائندہ وزیراعظم بن سکے ۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ اپنے بھائی کو ہی وزیر بناپائیں گے اس لئے وہ عوام کوانتخاب کے نتیجے میں خون خرابے سے خوفزدہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔