نفرت انگیز تقریروں کا مستقل سّدِ باب کیسے ممکن ہے؟
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کسی شخص کا برطانوی سرزمین کا استعمال قابلِ مذمت ہے، برطانیہ سنگین جرم میں ملوث شخص کو قانون کے دائرے میں لانے کے لئے پاکستان کی معاونت کرے۔ وزیر داخلہ نے برطانوی وزارتِ داخلہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر پر تبادلۂ خیال کیا۔ الطاف حسین نے پوری قوم خصوصاً اُردو بولنے والوں کی دِل آزاری کی اور پاکستانیوں کی ہتک کر کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ برطانوی حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس بات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ برطانیہ میں سکاٹ لینڈ یارڈ نے تصدیق کی ہے کہ الطاف حسین کی نفرت انگیز تقاریر پر تحقیقات جاری ہیں، بہت سے پاکستانیوں کی اِس سلسلے میں شکایتی ای میلز، سکاٹ لینڈ یارڈ کو موصول ہو رہی ہیں۔ لندن میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ کراچی میں میڈیا ہاؤسز پر حملے کی رپورٹس سے آگاہ ہیں۔ لندن میں برطانوی وزیراعظم کی رہائش کے باہر الطاف کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ الطاف حسین کے بیان کے سارے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں،اِس بیان سے پاکستان کے حالات کشمیر جیسے کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ دُنیا کشمیر کے مسئلے کو بھول جائے۔ برطانیہ کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر برطانوی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا جائے، الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف بات کر کے خود اپنی شہریت ختم کر دی ہے۔
برطانیہ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اُن کے شہریوں کو تقریر و تحریر کی آزادیاں حاصل ہیں اِس لئے اس بنیاد پر کسی شہری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی، لندن میں ہائیڈ پارک کے سپیکرز کارنر کو تقریر کی آزادی کے سمبل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مختصر سا گوشہ ہے، لیکن برطانوی حکومت سے بصد ادب و احترام یہ تو استفسار کیا جا سکتا ہے کہ کیا الطاف حسین کے گھر کو بھی ہائیڈ پارک کا سٹیٹس دے دیا گیا ہے کہ وہ وہاں بیٹھ کر ہزاروں میل دور کراچی میں آگ لگانے کا حکم دیں اور اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی برطانوی شہری کسی جلسے کے شرکا کو یہ حکم دے کہ جاؤ اور جا کر بش ہاؤس کو جو بی بی سی کا ہیڈ کوارٹر ہے، تہس نہس کر دو، یا لندن میں سی این این کے علاقائی دفتر کو جا کر آگ لگا دو۔
الطاف حسین نے کراچی میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے اپنے کارکنوں کو یہی حکم دیا تھا کہ وہ تین میڈیا ہاؤسز کو تباہ کر دیں، لیکن ان کے کارکن صرف ایک کے خلاف کارروائی میں کامیاب ہوئے۔ الطاف حسین نے رینجرز ہیڈ کوارٹر پر حملے کی ہدایت کی تھی اور کارکنوں سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس کو کراچی سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِن جرائم پر اگرچہ عمل نہ ہو سکا تاہم انہوں نے اشتعال انگیزی کی انتہا کر دی تھی۔ الطاف حسین اپنی مرضی سے فرار ہو کر برطانیہ گئے تھے اور پھر وہاں کے شہری بن گئے، اُنہیں یہ حقِ کس نے دیا ہے کہ وہ برطانوی سرزمین پر بیٹھ کر کراچی کو خون میں نہلانے کے احکامات دیتے رہیں۔ یہ تو کراچی میں رینجرز کے انتظامات تھے جن کی وجہ سے الطاف حسین کے ’’احکامات‘‘ پر پوری طرح عمل نہ ہو سکا ورنہ انہوں نے تو اپنی جانب سے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی، اِس لئے برطانوی پولیس کا فرض ہے کہ وہ اِس تقریر کی ویڈیو حاصل کر کے اِس بات کا تعین کرے کہ کیا اِس تقریر پر نفرت انگیز اور اشتعال انگیز حالات پیدا کرنے کا اطلاق نہیں ہوتا اور کیا دوسرے برطانوی شہریوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی اِسی طرح کی اشتعال انگیزیاں کرتے پھریں، یا یہ حق صرف الطاف حسین کے لئے مخصوص ہے کہ جب جی چاہے پاکستان کے حالات خراب کرنے کے لئے جو مُنہ میں آئے کہتے پھریں۔ کہنے کو تو انہوں نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں کئے جانے والے خطاب پر معافی مانگ لی، لیکن اگلے دِن انہوں نے اِس طرح کا بلکہ اس سے بھی زیادہ اشتعال انگیز خطاب امریکہ میں اپنے کارکنوں سے کر دیا، جس میں پاکستان کے خلاف دوسرے ملکوں سے مدد مانگی، کیا اِس سے یہ سمجھا جائے کہ برطانوی حکومت نے اپنے شہری کو پاکستان کے خلاف ہر قسم کی نفرت انگیز تقریر کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے؟
وزیر داخلہ نے سکاٹ لینڈ یارڈ سے رابطہ کیا ہے تو اب اِس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اِس سے پہلے الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تحقیقات بہت سست رفتاری سے ہوتی رہی ہیں پھر شاید اُنہیں کسی مفید مقصد کی خاطر استعمال کرنے کے لئے اِس معاملے میں نرم رویہ اختیار کر لیا گیا، لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل بھی ہوا تھا،جس میں ایسے لوگ ملوث پائے گئے،جن کے رابطے کِسی نہ کِسی طرح ایم کیو ایم کے ساتھ تھے۔’’را‘‘ سے فنڈنگ کے ثبوت تو مصطفےٰ کمال پیش کرتے رہتے ہیں، جو ایم کیو ایم کے گھر کے بھیدی ہیں۔ اِس پس منظر میں اگر سکاٹ لینڈ یارڈ الطاف حسین کی نفرت انگیز تقریر پر کوئی تحقیق کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کو کچھوے کی رفتار سے نہیں چلنا چاہئے، کیونکہ اِس سلسلے میں سب کچھ واضح ہے اِدھر تقریر ختم ہوئی اور اُدھر توڑ پھوڑ کا آغاز کر دیا گیا۔ اِس سارے عمل میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگا، اِس لئے اگر تحقیق کو واقعی کسی نتیجے پر پہنچانا مقصود ہو تو یہ بھی گھنٹوں میں مکمل ہو سکتی ہے اور اگر محض لٹکانا مقصود ہے تو پھر اِس کام پر برسوں لگ سکتے ہیں، لیکن یہ سنجیدہ معاملہ ہے اگر چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ کراچی کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا تو پھر ضرورت ہے کہ وہ برطانوی حکام کے ساتھ نتیجہ خیز رابطہ کریں حکام کو تقریر کا مسودہ فراہم کریں اور ان سے درخواست کریں کہ اس تقریر پر فیصلہ صادر کریں کہ کیا یہ نفرت پھیلانے والے مواد کی ذیل میں آتی ہے یا نہیں اگر برطانوی حکام میرٹ پر فیصلہ کریں تو چند دن کے اندر اندر نفرت انگیز تقریروں کا سلسلہ بند ہو سکتا ہے۔