سرکار ی ہسپتالوں میں غریبوں کے لئے دھکے

سرکار ی ہسپتالوں میں غریبوں کے لئے دھکے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام عام آدمی کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی کا شاندار پروگرام ہے، اور اس پروگرام کا دائرہ مرحلہ وار پورے پنجاب تک بڑھایا جائے گا، پہلے مرحلے میں ہیلتھ پروگرام کا دائرہ جنوبی پنجاب میں پھیلایا جائے گا۔ اس کے بعد پنجاب کے باقی اضلاع تک توسیع دی جائے گی اس مقصد کے لئے مطلوبہ فنڈز فراہم کئے جائیں گے پروگرام کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لئے پنجاب حکومت کی جانب سے ہر ممکن سپورٹ فراہم کی جائے گی۔جہاں غریب آدمی کو دھکے ملیں اس نظام کو بدلنا ہوگا وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر اعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام کا دائرہ وسیع کرنے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
وزیر اعظم نیشنل ہیلتھ پروگرام ایک اچھی ابتدا ہے، وفاقی حکومت 40شہروں میں نئے ہسپتال بھی تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے،لاہور سمیت کئی شہروں میں پنجاب حکومت نے صحت کی سہولتوں کا دائرہ بڑھا دیا ہے، مظفر گڑھ میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے نام پر سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بھی بنایا گیا ہے اور اس شعبے میں حکومت اربوں روپے کے اخراجات بھی کررہی ہے، لاہور میں دل کے امراض کے ہسپتال کی ایمرجنسی کو توسیع دینے کے لئے مخیر حضرات نے تعاون کیا ہے جو اپنے آپ کو ’’محبانِ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘ کہلاتے ہیں اسی طرح برکی روڈ (لاہور) پر گردے اور جگر کے امراض کے علاج کے لئے جدید ترین انسٹی ٹیوٹ بھی زیر تعمیر ہے اس نیک کام میں بھی نجی شعبے کا تعاون حکومت کو میسر ہے لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ صحت کے شعبے میں بعض ایسی خرابیاں سامنے آرہی ہیں جو حکومت کے ان روشن کارناموں کو گہنا دیتی ہیں اور اسی وجہ سے وزیر اعلیٰ کو دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑا ہے کہ جس نظام میں غریب کو دھکے ملیں اسے بدلنا ہوگا، یہ پورے کا پورا نظام تو آسانی سے شاید نہ بدلاجاسکے، کیونکہ اس کی قدم قدم پر مزاحمت ہوگی لیکن اس کی اصلاح کے لئے ضرور فوری اقدام کرنے پڑیں گے ورنہ حکومت اس شعبے میں جو اقدامات بھی کررہی ہے اور جو اخراجات بھی کئے جارہے ہیں وہ سب اکارت جائیں گے اور غریبوں کو پہلے کی طرح دھکے کھانے پڑیں گے۔
اس وقت عملاً یہ صورت حال ہے کہ ہسپتالوں سے رجوع کرنے والے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے اور طبی سہولتیں مقابلتاً کم ہیں، ایمرجنسی وارڈوں میں جا کر دیکھیں تو ہر جانب مریضوں اور ان کے لواحقین کی ایک بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر اور ہسپتال کا دوسرا عملہ بری طرح الجھا ہوا ہوتا ہے، مریض اور ان کے لواحقین ڈاکٹر اور عملہ سب اپنی اپنی جگہ پریشان ہوتے ہیں غالباً حالات کے اسی دباؤ کی وجہ سے ہسپتالوں کے اندر ڈاکٹر اور مریضوں کے لواحقین لڑ پڑتے ہیں۔ گُتھم گُتھا بھی ہو جاتے ہیں ایک دوسرے کو گھونسے اور لاتیں بھی رسید کر دیتے ہیں اگر اس معاملے کو گہرائی سے دیکھیں تو ایسی بری حالت کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے زیادہ مریض اور کم ڈاکٹر، یادوسرے الفاظ میں ڈاکٹروں سے جو توقعات وابستہ کی جاتی ہیں وہ پوری نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی مریض جاں بحق ہو جائے تو مریض کے لواحقین اس کا ذمہ دار ڈاکٹروں کی غفلت کو ٹھہرادیتے ہیں۔ غصے میں آکر وارڈ میں ہنگامہ بھی کرتے ہیں ایسے مناظر اب ہسپتالوں میں بہت عام ہو گئے ہیں، وزیر اعلیٰ کو سب سے پہلے اس جانب تو جہ دینے کی ضرورت ہے، اگر ہسپتالوں کی حالت بہترنہیں ہوگی، بستر گندے ہوں گے، وارڈوں میں بلیاں اور چوہے بھاگے پھرتے ہوں گے، صفائی ستھرائی کی حالت ناگفتہ بہ ہوگی، ڈاکٹروں اور مریضوں کے جھگڑے ہوتے رہیں گے تو اربوں روپے خرچ کر کے بھی صحت کی سہولتوں کے سلسلے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔
آج کل دل کے مریضوں کو سٹنٹ ڈالنے کا ایک تنازع میڈیا میں نمایاں ہے اس سلسلے میں ہر روز کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آ رہی ہے، سٹنٹ جعلی ہوتے ہیں یا غیر معیاری، ہسپتالوں کے اندر سٹنٹ فروخت کرنے والوں کے ایجنٹ ڈاکٹروں سے مل کر اپنا مال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اور منافع میں ڈاکٹروں کو بھی حصہ دار بناتے ہیں پچاس ساٹھ ہزار والا سٹنٹ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے میں لگایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ نیک نام سرکاری ہسپتالوں میں بھی ہو رہا ہے، سٹنٹ کا معاملہ تو اب سامنے آیا ہے جعلی ادویات کی شکایت تو دیرینہ ہے، ایسی شکایات سامنے آ چکی ہیں کہ ہسپتالوں کے میڈیکل سٹوروں سے اصلی دوائیاں چرا کر ان کی جگہ جعلی دوائیاں رکھ دی جاتی ہیں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ جعلی دوائیاں جب جاں بلب مریضوں کو دی جائیں گی تو وہ کیا خاک صحت یاب ہو ں گے۔ پیرا میڈیکل سٹاف کا شعبہ بدحالی کا شکار ہے، ڈاکٹر حضرات کوبعض لیبارٹریوں کی رپورٹوں پر اعتبار نہیں ہوتا، ایک ہی ٹیسٹ کی رپورٹ الگ الگ لیبارٹریوں سے حاصل کی جائے تو نتیجہ مختلف سامنے آتا ہے، ٹیسٹ رپورٹوں میں مریضوں میں وہ بیماریاں بھی ظاہرکر دی جاتی ہیں جن کی کوئی شکایت مریض نے کبھی نہیں کی ہوتی، بعض لیبارٹریوں کی ٹیسٹ رپورٹیں تو ڈاکٹر مانتے ہی نہیں۔ کئی سینئر سرجنوں کے حوالے سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ انہوں نے آپریشن سے پہلے اپنے مریضوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے مریض کے مفاد میں دوائیاں بازار سے لے آئیں کیونکہ ہسپتال کی دوائیاں قابلِ اعتماد نہیں ہیں یہ شکایت تو عام ہے کہ آپریشن کے دوران ڈاکٹر مریض کے پیٹ میں تولیہ، قینچی یا کوئی دوسرا اوزار بھول گیا اور پھر ایسے مریض کو دوبارہ آپریشن کرانا پڑا، ایسے ہولناک واقعات کا سلسلہ بڑی دور تک پھیلا ہوا ہے اور بڑے عرصے سے ہو رہا ہے۔
جونیئر ڈاکٹروں کی ہڑتالیں اس کے علاوہ ہیں وہ ہر ہفتے دو ہفتے بعد کسی نہ کسی مسئلے پر ہڑتال کردیتے ہیں جو طول بھی کھینچ لیتی ہے، ہسپتال ویران ہو جاتے ہیں اور ڈاکٹر سڑکوں پر لاکھوں شہریوں کو ٹریفک روک کر انہیں پریشان کررہے ہوتے ہیں، ڈاکٹروں کا ایک مسئلہ حل ہوتا ہے تو دوسرا پیدا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر وں کے مریضوں اور ان کے لواحقین سے جھگڑے تو اب اتنے عام ہو گئے ہیں کہ لاتوں اور گھونسوں کے مناظر ٹی وی سکرینوں تک پہنچ گئے ہیں اور روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں، ممکن ہے بعض ہسپتالوں کی حالت بہتر ہو، لیکن عمومی شکایات تو ایسی ہی ہیں۔ یہ بڑے شہروں کے ہسپتالوں کا حال ہے تو قصبائی اور چھوٹے شہروں کا تواللہ ہی حافظ ہے۔ وہاں ڈاکٹر اور دوسرا عملہ ہی دستیاب نہیں ہوتا، ڈاکٹر دیہات میں جاتے نہیں ٹرانسفر ہو تو چھٹیاں لے کر شہروں میں پرائیویٹ کلینکوں میں کام کرتے رہتے ہیں، ایسے میں چھوٹے شہروں کے مریض جب بڑے شہروں کی حالتِ زار دیکھتے ہیں تو اور بھی مایوس ہو جاتے ہیں، مریضوں کو علاج معالجہ اور ادویات اگر ہسپتالوں سے نہ بھی ملیں تو دھکے بہر حال نہیں ملنے چاہئیں ایسا اگر ہو رہا ہے اور وزیر اعلیٰ تک کو اس کی خبر ہے تو اس کے لئے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت ہے کیا اس کے لئے کوئی تیاری موجود ہے؟

مزید :

اداریہ -